01 ستمبر ، 2022
اسلام آباد: جیسا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو غیر مشروط معافی نہ مانگنے پر اپنے فیصلے پر نظرثانی کیلئے سات دن کا وقت دیا ہے، ماضی کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف الیکشن کمیشن ہی پی ٹی آئی چیئرمین کو تحریری معافی جمع کرانے پر مجبور کر سکتا ہے۔
2013ء میں سپریم کورٹ نے عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس بھیجا تھا لیکن توہین عدالت کے مرتکب کی جانب سے افسوس کا اظہار کیے بغیر ہی عدالت نے یہ کیس ختم کر دیا، تحریری معافی تو دور کی بات رہی۔ کیس تقریباً ویسا ہی تھا جیسا آج اسلام آباد ہائیکورٹ کی زیر سماعت ہے۔ اُس وقت عمران خان نے 2013ء کے الیکشن میں سیشن ججوں کے کردار کو ’’شرمناک‘‘ کہا تھا۔
جولائی 2013ء میں جب نوٹس دیا گیا تو عمران خان نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ سے معافی مانگنے کی بجائے جیل جانا پسند کریں گے۔ آج وہ کہتے ہیں کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ زیبا چوہدری عدلیہ کا حصہ ہیں اس لئے انہوں نے دھمکی لگائی۔ اسی طرح 2013ء میں انہوں نے دلیل دی تھی ان کی تنقید ریٹرننگ افسران کے جنرل الیکشن میں کردار پر تھی، نہ کہ عموماً عدلیہ پر۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری کی زیر قیادت بینچ نے یہ وضاحت قبول نہیں کی تھی۔ اُس وقت بھی حامد خان نے پی ٹی آئی چیئرمین کی طرف سے کیس لڑا تھا۔ یہ کیس اس وقت تک زیر التوا رہا جب تک جسٹس انور ظہیر جمالی چیف جسٹس تھے۔ انہوں نے کیس کی سماعت کی۔ اس وقت اٹارنی جنرل منیر ملک نے تجویز پیش کی کہ عدالت تحمل کا مظاہرہ کرے۔ عمران خان نے معافی نہیں مانگی لیکن عدالت نے کیس یہ کہتے ہوئے کیس ختم کر دیا کہ عمران خان کے چہرے سے ندامت محسوس ہوتی ہے۔
تاہم، الیکشن کمیشن نے اس وقت سخت موقف اختیار کیا جب 2017ء میں کمیشن نے عمران خان کو فارن فنڈنگ کیس میں ہدف بنایا۔ دو مختلف مواقع پر عمران نے کمیشن کیخلاف توہین آمیز رویہ اختیار کیا اور ایک موقع پر ادارے کو ’’متعصب‘‘ کہا۔ فارن فنڈنگ کیس میں درخواست گزار اکبر ایس بابر نے درخواست دائر کی کہ عمران خان نے توہین آمیز ریمارکس دیے ہیں۔ اس پر جسٹس (ر) سردار رضا خان چیف الیکشن کمشنر تھے۔ سردار رضا خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے عمران کو طلب کیا۔ عدم حاضری پر انہیں گرفتار کرنے کے وارنٹ جاری کیے گئے۔
پی ٹی آئی چیئرمین نے اس پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت نے انہیں توہین کیس میں اپنا تحریری جواب پیش کرنے کو کہا۔ توہین کے کیس میں جس دن الیکشن کمیشن اپنا فیصلہ جاری کرنے والا تھا اس سے ایک دن قبل اس کیس میں عمران کے وکیل بابر اعوان نے بالآخر غیر مشروط معافی لکھ کر دی جبکہ عمران خان خود بھی پیش ہوئے اور معافی مانگی۔
2018ء میں عمران خان کو ایک مرتبہ پھر معافی مانگنا پڑی۔ انہیں کھل کر اپنا ووٹ ڈالنے پر الیکشن کے ضابطے کی خلاف ورزی کا قصور وار قرار دیا گیا۔