20 ستمبر ، 2022
ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف درخواست کی سماعت میں وفاقی شرعی عدالت نے سینیٹرمشتاق احمد خان اور فرحت اللہ بابرکی فریق بننے کی درخواستیں منظور کرلیں۔
وفاقی شرعی عدالت میں خواجہ سراؤں کے حقوق سے متعلق ٹرانس جینڈر ایکٹ کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے سینیٹرمشتاق احمد خان، فرحت اللہ بابر، الماس بوبی سمیت دیگر افراد کی فریق بننے کی درخواستیں منظور کرلیں۔
عدالت نے تمام فریقین کو اپنی گزارشات تحریری طور پرجمع کروانے کی ہدایت کردی۔
درخواست گزار فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ بل بنتے وقت پوری اسمبلی نے بل کو منظور کیا تھا، بل بنتے وقت میں اس سارے عمل میں شامل تھا، بل پرکیا اعتراضات تھے اور کیا بحث ہوئی عدالت کو بتانا چاہتا ہوں، دو بلوں کو ملا کر ایک بل بنایا گیا تھا۔
سینیٹر مشتاق کے وکیل کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں نیا بل جمع کروایا گیا ہے،کسی کو اپنی مرضی سے جنس بدلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
خواجہ سرا نایاب نے دوران سماعت ٹرانس جینڈر کی جانب سے سوشل میڈیا بحث پرپابندی کی استدعا کی۔
قائم مقام چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ خواجہ سراؤں کے حقوق کا ہے، جس کے بھی جو حقوق ہیں وہ ملنے چاہئیں، کمیونٹی کو تحفظ اور حق دینا ہی اصل مقصد ہے،کوئی آنکھیں بند کرلے تو وہ نابینا نہیں بن جائےگا۔
قائم مقام چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ خواجہ سراؤں کے کوٹےکے لیے حکومت کا کیا طریقہ کار ہے؟ یہ نہ ہوکہ نوکری کے لیے کوئی خواجہ سرا کا شناختی کارڈ بنوالے۔
نمائندہ وزارت انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کے ایکٹ پرعمل درآمد سے ہم جنس پرستی کو فروغ نہیں ملتا، خواجہ سراؤں کو نوکریاں دینے کا باقاعدہ طریقہ کار ہے۔
وفاقی شرعی عدالت نےکیس کی مزید سماعت غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔