27 ستمبر ، 2022
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وفاقی کابینہ کی تشکیل کے خلاف شیخ رشید کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شیخ رشید احمد کی درخواست مسترد کرنے کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 92 کے تحت وزیراعظم کو اختیار ہے کہ کابینہ کی تشکیل کے لیے 50 سے زائد ارکان کو نامزد نہ کریں۔
عدالت کا کہنا ہے کہ درخواست میں خود تسلیم کیا گیا ہے کہ موجودہ کابینہ 34 وزرا اور 7 وزرائے مملکت پر مشتمل ہے، شیخ رشید کی اپنی درخواست سے واضح ہے کہ آئین کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی، اسی طرح اس بات میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ 4 مشیروں کا تقرر وزیر اعظم کے مشورے پر کیا گیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ شیخ رشید نے اپنی نشست سے استعفیٰ دیا جسے اسپیکر نے قبول نہیں کیا اس لیے وہ اب بھی رکن اسمبلی ہیں، طویل عرصہ پارلیمنٹیرین رہنے والے سے ایسی غیر سنجیدہ اور فضول درخواست دائر کرنے کی توقع نہ تھی، شیخ رشید خود کابینہ رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے، اُس وقت کابینہ کی تشکیل بھی ایسی ہی تھی، اُس وقت کے وزیر اعظم کی جانب سے معاونین خصوصی کی ایک بڑی تعداد کا تقرر ہوا جنہیں اس عدالت میں چیلنج کیا گیا تو درخواستیں خارج کر دی گئیں اورعدالت نے قرار دیا تھا کہ وزیر اعظم کو رولز آف بزنس کے تحت خصوصی معاونین کی تقرری کا اختیار دیا گیا ہے، عدالت نے مزید کہا تھا کہ معاونین خصوصی کابینہ کے رکن نہیں، ایسی تقرریوں کی تعداد کے حوالے سے بھی پابندی نہیں۔
عدالت نے حکم نامے میں لکھا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ سیاسی قائدین سیاسی تنازعات پارلیمنٹ میں طے کرنے کے بجائے عدالت آنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس رجحان نے پارلیمنٹ کے وقار، تقدس اور تاثیر کو مجروح کیا ہے، اس کے ساتھ ہی یہ عدالتوں کو غیر ضروری طور پر سیاسی نوعیت کے تنازعات میں گھسیٹتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ منتخب نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو مضبوط اور اس کی بالادستی اور تقدس کو برقرار رکھیں، سیاسی تنازعات کو آئینی عدالتوں کے سامنے لانے کا رجحان یقیناً عوامی مفاد میں نہیں، اس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔
عدالت نے وفاقی کابینہ کی تشکیل کے خلاف شیخ رشید کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔