06 اکتوبر ، 2022
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران نیب نے گزشتہ 21 سال کے دوران ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات جمع کرائیں، نیب پراسیکیوٹر نے ترامیم کے ذریعے 280 سے زائد نیب مقدمات واپس ہوجانےکا انکشاف بھی کیا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کےخلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ترامیم کے تحت دباؤ کا الزام لگنے پر پلی بارگین منسوخ ہوجائےگی پھر جمع رقم بھی واپس کرنا ہوگی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کیا پلی بارگین منسوخ ہونے سے سزا کے ساتھ جرم بھی ختم ہوجائے گا؟
وکیل خواجہ حارث نے کہا ترمیم کے تحت جرم اور سزا دونوں ہی ختم ہوجائیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا عدالت کی جانب سے دی گئی سزا قانون سازی سے کیسے ختم ہوسکتی؟ صدر بھی رحم کی اپیل میں سزا معاف کر سکتے ہیں جرم ختم نہیں ہوتا، کرپشن 50 کروڑ سے کم ہو تو پلی بارگین کے ساتھ مقدمہ بھی ختم ہو جائےگا، ترمیم سے لگتا ہے 49 کروڑ تک کرپشن ٹھیک اور اس سے زیادہ غلط ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کابینہ اور دیگر فورمز کے ساتھ وزراء اور معاونین خصوصی کو بھی استثنٰی دےدیا گیا ہے،ترامیم کا اطلاق بیرون ملک اثاثوں پر بھی ہوگا، کرپشن کرنے والے ملزمان کو بچانے کے لیے ترامیم کے ذریعے پورا بندوبست کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کیا ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھانے والا عام آدمی بھی نیب ریڈار پر آسکتا ہے؟ معاشرہ ایسا ہےکہ کاروباری افراد کو کئی جگہ رشوت دینا پڑتی ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق ان ترامیم کو گزشتہ حکومت نے شروع کیا تھا؟ دو ماہ میں ان ترامیم کی ڈرافٹنگ کا کریڈٹ وزیر قانون کو جاتا ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت 10 اکتوبر تک ملتوی کردی۔