Time 10 اکتوبر ، 2022
دلچسپ و عجیب

اے ٹی ایم کارڈ کا پن کوڈ 4 ہندسوں کا ہونے کی وجہ جانتے ہیں؟

اس کی وجہ بہت دلچسپ پے / رائٹرز فوٹو
اس کی وجہ بہت دلچسپ پے / رائٹرز فوٹو

آٹومیٹڈ ٹیلر مشین المعروف اے ٹی ایم کا استعمال تو اب لگ بھگ ہر فرد ہی کرتا ہے اور اکثر  اس سے رقم نکلوانے کے لیے استعمال ہونے والے کارڈز میں 4 ہندسوں کا پن کوڈ استعمال ہوتا ہے۔

مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ آخر اے ٹی ایم کارڈ کے پن کوڈ کو 4 ہندسوں تک کیوں محدود رکھا گیا حالانکہ زیادہ نمبروں سے اس کا استعمال زیادہ محفوظ ہوسکتا تھا؟

تو اس کا جواب ایک خاتون کی خراب یادداشت میں چھپا ہوا ہے۔

جی ہاں یہی کوئی 5 دہائیوں سے زائد عرصے پہلے جان شیپرڈ بیرن نامی برطانوی موجد کو ایک ایسی مشین کا خیال آیا جس سے چاکلیٹس کی بجائے پیسوں کا حصول ممکن ہوسکے۔

اس طرح انہیں آٹومیٹڈ ٹیلر مشین کا آئیڈیا آیا اور 1967 میں لندن میں پہلی اے ٹی ایم مشین نصب کی گئی۔

مگر مشین کی تیاری کے ساتھ ساتھ جان شیپرڈ کو یہ احساس بھی ہوا کہ صارف کے تحفظ کے لیے بھی کچھ کرنا ہوگا تو اس کا حل پن کوڈ کی شکل میں نکالا گیا۔

اپنے پرانے فوجی نمبر کو ذہن میں رکھتے ہوئے جان شیپرڈ نے ابتدائی طور پر 6 ہندسوں کے کوڈ کو تیار کیا۔

مگر ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کی اہلیہ کیرولین نے اس خیال کو کچن میں بات کرتے ہوئے مسترد کردیا۔

انہوں نے بتایا کہ 'میری اہلیہ کا کہنا تھا کہ وہ صرف 4 ہندسوں کو ہی یاد رکھ سکتی ہے اور کیرولین کی وجہ سے ہی 4 ڈیجٹ پن کوڈ عالمی معیار بن گیا'۔

کیرولین کی کمزور یادداشت دنیا بھر کے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو آسان بنانے کا باعث بنی مگر یہ ذہن میں رہے کہ اس کے باعث ہیکرز کو صرف 10 ہزار نمبروں کے امتزاج پر غور کرنا ہوتا ہے۔

ویسے یہ تعداد بھی کافی زیادہ ہے کیونکہ اکثر اے ٹی ایم مشینوں میں پن کو متعدد بار ٹائپ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، تو پن کوڈ کا اندازہ کرلینے کا امکان کم ہوتا ہے۔

جان شیپرڈ نے زندگی میں متعدد چیزوں پر کام کیا مگر انہیں اے ٹی ایم اور پن کوڈ کی وجہ سے ہی جانا جاتا ہے۔

مگر انہیں اس کی اہمیت کا احساس اس وقت ہوا جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ تعطیلات منانے تھائی لینڈ گئے، جہاں ایک کاشتکار نے اپنی ٹوپی سے کارڈ نکال کر ایک کیش مشین کو استعمال کیا۔

اس وقت جان شیپرڈ کو احساس ہوا کہ انہوں نے کسی حد تک دنیا کو بدل دیا ہے۔

اب دنیا بھر میں لاتعداد اے ٹی ایم مشینیں نصب ہیں یہاں تک کہ انٹارکٹیکا میں بھی اسے نصب کیا گیا ہے۔

مزید خبریں :