Time 14 اکتوبر ، 2022
پاکستان

نشتر اسپتال ملتان میں انسانیت کی تذلیل، سرد خانے کی چھت سے درجنوں لاشیں ملنے کا انکشاف

ملتان کے نشتر اسپتال کی چھت سے درجنوں لاوارث لاشیں ملنے کے واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

ذرائع کا بتانا ہے کہ نشتر اسپتال کی چھت پر  بنے کمرے میں درجنوں لاشیں گل سڑ رہی ہیں۔

دوسری جانب سوشل میڈیا پر زیر گردش خبروں کے مطابق نشتر اسپتال کی چھت سے سیکڑوں کی تعداد میں انسانی لاشوں کے اعضا برآمد ہوئے ہیں تاہم تعداد کے حوالے سے حکومتی سطح پر کسی قسم کی تصدیق یا تردید تاحال سامنے نہیں آسکی ہے۔  

وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے نشتر اسپتال کی چھت پر لاوارث لاشیں رکھنے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی سیکرٹری اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ لاشیں چھت پر پھینک کر غیر انسانی فعل کا ارتکاب کیا گیا ہے، ذمہ دار عملے کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔

معاملے کی انکوائری کیلئے 6 رکنی کمیٹی تشکیل

سیکرٹری ہیلتھ ساؤتھ پنجاب نے معاملے کی انکوائری کے لیے 6 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، کمیٹی 3 روز میں اپنی رپورٹ سیکرٹری ہیلتھ ساؤتھ کو پیش کرے گی۔

وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی نے بھی 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، کمیٹی تمام معلومات کے ساتھ اپنی رپورٹ وائس چانسلر کو پیش کرے گی۔

لاوارث لاشوں کی تدفین نشتر اسپتال انتظامیہ کا کام ہے: سی پی او ملتان

سی پی او ملتان خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ دفعہ 174 کی کارروائی کے بعد لاوارث لاش نشتر اسپتال کے سرد خانے میں رکھی جاتی ہے، ولیس کا سرد خانے میں لاش رکھوانے کے بعد کوئی عمل دخل باقی نہیں رہتا، لاوارث لاشوں کی تدفین نشتر اسپتال انتظامیہ کا کام ہے۔

خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق لاوارث لاشیں اسپتال میں رکھوانے کی پولیس پابند ہے، لاشوں کو کتنا عرصہ رکھنا اور ان کا کیا کرنا ہے یہ اسپتال انتظامیہ کا کام ہے، اگر وارث آ جائے تو قانونی کارروائی کے بعد اسپتال انتظامیہ لاش حوالےکر دیتی ہے۔

نشتر اسپتال میں لاشوں کو ایک کمرے میں کیوں پھینکا جارہا تھا؟

اسپتال کے کچھ ملازمین نے جیو نیوز کو بتایا کہ نشتر اسپتال کے مردہ خانے کے فریزر کئی سال خراب ہیں اور 5 میں سے بس ایک فریزر کام کررہا ہے، جس کے باعث وہاں 7 سے 8 میتیں رکھی جاسکتی ہیں۔

اس مردہ خانے میں 40 میتیں رکھنے کی جگہ ہے مگر لاوارث لاشوں کی تعداد زیادہ ہے۔

ملازمین کے مطابق باقی لاشوں کی حالت ویسے ہی خراب ہوجاتی ہیں جس کے بعد انہیں میڈیکل کے طلبہ کے تجربات کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور ان کے تجربات کے بعد انہیں ایسے ہی پھینک دیا جاتا ہے اور وہ لاوارث پڑی رہتی ہیں۔

اس معاملے پر اسپتال کی انتظامیہ نے 3 رکنی ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے معاملے کی تحقیقات شروع کردی ہے۔

لاوارث لاشوں کو اسپتال سے لیجانے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟

جیو نیوز کراچی کے بیورو چیف اور عرصہ دراز تک کرائم رپورٹنگ سے وابستہ رہنے والے فہیم صدیقی کا بتانا ہے کہ کراچی میں ہر 48 سے 72 گھنٹے کے دوران ایک سے دو لاشیں سرکاری اسپتالوں میں لائی جاتی ہیں جن کی ماہانہ تعداد 15 سے 20 بنتی ہے۔

فہیم صدیقی نے بتایا کہ متعلقہ تھانے کی پولیس لاشوں کی ذمہ دار ہوتی ہے، سرکاری اسپتال کا ایم ایل او تھانے کو آگاہ کرتا ہے اور جو پولیس افسر 174 بناتا ہے لاش بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی کہ وہ ان لاوارث لاشوں کو امانتاً کہاں رکھتا ہے، پھر اگر ایک ماہ تک لاش کا کوئی والی وارث نہیں آتا تو ان لاشوں کو ایدھی کے قبرستان میں امانتاً دفن کر دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نشتر اسپتال میں ایسا کیوں ہوا اس کے بارے میں تو معلوم نہیں لیکن کراچی میں عام طور پر جب میڈیکل کالجز لاشیں مانگتے ہیں تو اس کا باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے، کالجز  پولیس اور محکمہ داخلہ کے ذریعے درخواست دیتے ہیں اور وہ لاشیں انہیں دے دی جاتی ہیں لیکن اب یہ طریقہ کار بھی کافی عرصے سے اختیار نہیں کیا جا رہا اور اسپتالوں میں ڈمی باڈیز پر بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے۔

بیورو چیف کراچی کا کہنا تھا اگر کوئی ماہر ڈاکٹر بچوں کو کسی پیچیدہ چیز کے بارے میں بتانا ضروری سمجھتا ہے تو لاش کو 24 گھنٹے یا اس سے بھی کم وقت کے لیے لے جایا جاتا ہے اور پھر اسے واپس کر دیا جاتا ہے۔

مزید خبریں :