02 نومبر ، 2022
کینیا میں مبینہ پولیس مقابلے میں شہید کیے گئے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے پاکستان سے تفتیش کاروں پر مشتمل ایک ٹیم ان دنوں کینیا میں ہے جو واقعے کے تمام پہلوؤں کی جانچ کر رہی ہے۔
گزشتہ دنوں کینیا سے آنے والی مختلف تصویریں پاکستانی میڈیا پر نشر ہوئیں جن میں ٹیم کے ارکان اس گاڑی کا معائنہ بھی کر رہے تھے جس پر کینیا پولیس کے دعوے کے مطابق اس وقت فائرنگ کی گئی جب گاڑی روکنے کا اشارہ دینے کے باوجود ڈرائیور کی جانب سے گاڑی نہ روکی گئی۔ ان تصویروں میں ایک شخص کو دیکھ کر 16 سال پرانی ایک پریس کانفرنس یاد آگئی۔
’اغوا برائے تاوان کی درجنوں وارداتوں میں پولیس کو انتہائی مطلوب ملزم معشوق بروہی پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔‘
یہ بات ہے 11 جولائی 2006 کی اور کہنے والے تھے اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی نیاز صدیقی جو بعد میں آئی جی سندھ کے عہدے تک بھی پہنچے۔
2006 میں، جیو نیوز کے فلیگ شو ’جیو ایف آئی آر‘ کی میزبانی کے ساتھ ساتھ میں بطور کرائم رپورٹر بھی کام کررہا تھا اور یہ پریس کانفرنس کور کرنے پہنچا تھا۔
پریس کانفرنس میں نیاز صدیقی کے دائیں اور بائیں جانب لیاری ٹاسک فورس کے افسران بھی بیٹھے تھے جن میں چوہدری اسلم جو بعد میں ایک بم دھماکے میں شہید ہوگئے، موجودہ ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر اور عمر شاہد حامد جو اس وقت آئی بی میں تعینات ہیں، ان سمیت دیگر افسران براجمان تھے۔ تمام پولیس افسران انتہائی پراعتماد نظر آرہے تھے اور یہ پریس کانفرنس ان دنوں کراچی کے کرائم ریٹ کے حوالے سے نہایت اہم بھی تھی۔
کراچی میں اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کا گراف مسلسل اوپر جارہا تھا اور اس جرم نے ایک منافع بخش کاروبار کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ آئے دن کوئی تاجر، صنعت کار یا کوئی اور اہم شخصیت اغوا ہوجاتی اور پھر تاوان کی ادائیگی کے بعد ہی ان کی رہائی عمل میں آتی۔
ان وارداتوں میں کئی گروہ ملوث تھے جن میں پولیس کے مطابق لیاری سے تعلق رکھنے والے رحمٰن ڈکیت اور ارشد پپو بھی شامل تھے لیکن ایک اور بڑا نام معشوق بروہی کا تھا جس کا تعلق بلوچستان کے علاقے حب سے تھا۔ معشوق بروہی کا گروہ کراچی سے شہریوں کو اغوا کر کے حب لے جاتا تھا پھر وہاں سے تاوان کے لیے کالز کی جاتیں اور تاوان کی خطیر رقم کی وصولی کے بعد ہی مغوی کو رہائی ملتی تھی۔
معشوق بروہی نے اپنی دہشت بٹھانے کے لیے چند مغویوں کو تاوان کی ادائیگی نہ ہونے پر قتل بھی کردیا تھا۔ ان حالات میں یہ پریس کانفرنس کراچی کے شہریوں کے لیے بہت بڑی خوش خبری بھی تھی۔
ڈی آئی جی نیاز صدیقی کے مطابق لیاری ٹاسک فورس نے ایک اطلاع پر گڈاپ کے علاقے میں کارروائی کی تھی اور پولیس سے فائرنگ کے مبینہ تبادلے میں معشوق بروہی مارا گیا تھا ۔یہ پرویز مشروف کا دور تھا اور صوبہ سندھ کی وزارت داخلہ ایم کیو ایم کے پاس تھی۔ رؤف صدیقی صوبائی وزیر داخلہ تھے اور انہوں نے اس پولیس مقابلے میں حصہ لینے والی پولیس پارٹی کے لیے 10 لاکھ روپے انعام اور نچلے گریڈ کے پولیس اہلکاروں کو اگلے رینک پر ترقی دینے کا بھی اعلان کیا جبکہ معشوق بروہی کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر سندھ حکومت کی جانب سے 25 لاکھ روپے کا انعام پہلے ہی مقرر تھا۔
لیکن کراچی کے شہریوں کی یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی اور چند روز بعد ہی پولیس کے اس دعوے کی اس وقت قلعی کھل گئی جب پولیس مقابلے میں مارے جانے والے شخص کے اہل خانہ یہ کہتے ہوئے سامنے آئے کہ پولیس مقابلے میں مرنے والا معشوق بروہی نہیں بلکہ سکرنڈ کا ایک ہاری، 6 بچوں کا باپ رسول بخش بروہی تھا، جسے 6 جولائی 2006 کو حب سے سکرنڈ جاتے ہوئے حیدرآباد کے قریب بس سے اتار کر حراست میں لیا گیا۔ یہ کارروائی کرنے والے سادہ لباس اہلکار تھے اور 11 جولائی 2006 کو گڈاپ کے علاقے میں رسول بخش بروہی کو معشوق بروہی قرار دے کر ایک مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا۔ لیاری ٹاسک فورس معشوق بروہی کے نام پر اس پولیس مقابلے تک 30 اور پولیس مقابلے کرچکی تھی۔
جیو ایف آئی آر میں ہم نے رسول بخش بروہی کو معشوق بروہی قرار دے کر قتل کیے جانے پر کئی پروگرامز کیے میڈیا میں مسلسل آواز اٹھنے پر اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار چوہدری نے اس کا ازخود نوٹس لیا اور آئی جی سندھ جہانگیر مرزا کو واقعے کی انکوائری کا حکم دیا، انکوائری ہوئی اور انکوائری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں قرار دیا کہ لیاری ٹاسک فورس کا معشوق بروہی کو پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ جھوٹا تھا، پولیس نے یہ مقابلہ اسٹیج کیا تھا اور معشوق بروہی کی بجائے ایک بے گناہ شخص رسول بخش بروہی کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا ہے۔
انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر لیاری ٹاسک فورس کو فوری طور پرتحلیل کردیا گیا لیکن صرف 24 گھنٹے میں ہی یہ حکم واپس بھی لے لیا گیا، معاملہ چونکہ ہائی پروفائل بن چکا تھا اور افتخار چوہدری ہر سماعت پر اس ماورائے عدالت قتل پر سندھ پولیس سے پروگریس مانگا کرتے تھے اس لیے پولیس نے سکرنڈ میں رسول بخش بروہی کے قتل کا مقدمہ نمبر 101/2006 درج کیا اور ایف آئی آر سپریم کورٹ میں پیش کردی۔
عدالت نے اس وقت کے ایک اچھی شہرت کے حامل پولیس افسر ایس پی نیاز کھوسو کو مقدمے کی تفتیش دی، جنہوں نے اس مقدمے میں چوہدری اسلم، عرفان بہادر، ڈی ایس پی راؤ اقبال، انسپکٹر بہاالدین بابر، انسپکٹر ناصر الحسن اور اس جعلی پولیس مقابلے کے مرکزی کردار اینٹی کار لفٹنگ سیل میں تعینات دو انسپکٹر بھائیوں اسحاق لاشاری اور اسماعیل لاشاری ودیگر کو گرفتار کیا جبکہ ایف آئی آر میں نامزد انسپکٹر سرور کمانڈو 5 اکتوبر 2006 کو ملک سے فرار کی کوشش کے دوران جناح ائیرپورٹ سے ایف آئی اے امیگریشن کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے لیکن ایک شخص راتوں رات ملک سے فرار ہونے میں کامیاب ہو ہی گیا اور یہ تھے اے ایس پی عمر شاہد حامد۔
یہ معاملہ تقریباً دو سال تک عدالتوں میں چلتا رہا اور اس دوران تمام گرفتار پولیس افسران جیل میں اور عمر شاہد حامد امریکا میں مفرور رہے۔
پولیس نے رسول بخش بروہی قتل کیس کا چالان عدالت میں پیش کیا تو عمر شاہد حامد کو مفرور قرار دیا عدالت نے چند سماعتوں کے بعد انہیں اشتہاری قرار دے دیا اور ایک موقع پر عمر شاہد حامد کی گرفتاری کے لیے دائمی وارنٹ بھی جاری کردیے ان وارنٹس پر گرفتاری کے لیے سندھ پولیس نے وفاقی وزارت داخلہ کے ذریعے انٹرپول کو بھی لکھا لیکن پاکستان اور امریکا میں تحویل مجرمان کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے عمر شاہد حامد جعلی پولیس مقابلے میں گرفتاری سے بچ گئے۔
2008 میں سندھ ہائی کورٹ کے اس وقت کے جج خواجہ نوید نے رسول بخش بروہی کے ماورائے عدالت قتل پر پولیس افسران کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کو کالعدم قرار دے دیا ۔کہا جاتا ہے کہ یہ وہ فیصلہ تھا جو جسٹس خواجہ نوید کی بطور جج سندھ ہائی کورٹ توثیق کی راہ میں رکاوٹ بنا اور انہیں سندھ ہائی کورٹ کا مستقل جج نہیں بنایا گیا۔
سندھ حکومت نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی لیکن اگست 2011 میں آج کے سینیٹر اور اس وقت کے پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان ایڈووکیٹ نے جناب جسٹس انور ظہیر جمالی اور جناب جسٹس غلام ربانی کی عدالت میں پیش ہو کر مؤقف اختیار کیا کہ سندھ حکومت اپیل کی مزید پیروی نہیں کرنا چاہتی جس پر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی اپیل مسترد کردی گئی۔
عمر شاہد حامد کے ای ایس سی کے سابق مینجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد کے صاحبزادے ہیں جنہیں 5 جولائی 1997 کو ان کے گھر کے باہر گارڈ اور ڈرائیور سمیت فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔شاہد حامد قتل کیس میں ایم کیو ایم کے کارکن صولت مرزا کو 1999 میں پھانسی کی سزا سنائی گئی اور 16 سال بعد 12 مئی 2015 کو بلوچستان کی مچھ جیل میں صولت مرزا کو پھانسی دے دی گئی ۔عمر شاہد حامد کی والدہ شہناز شاہد حامد بھی سندھ میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز رہیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد عمر شاہد حامد پاکستان واپس آگئے اور انہوں نے دوبارہ پولیس سروس جوائن کرلی ۔اے ایس پی سے ڈی آئی جی کے عہدے تک پہنچے اور کچھ عرصے قبل ان کا تبادلہ انٹیلی جنس بیورو میں کردیا گیا۔عمر شاہد حامد ان دنوں صحافی ارشد شریف کی کینیا پولیس کے ہاتھوں مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی تحقیقات کے لیے کینیا گئے ہوئے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کا بھی حصہ ہیں لیکن یاد رہے کہ رسول بخش بروہی کے اہل خانہ کو آج 16 سال گزر جانے کے بعد بھی انصاف نہیں مل سکا ہے۔