نیند کی وہ عام عادات جن کو اپناکر آپ اگلے دن کو اچھا بناسکتے ہیں

یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو
یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو

کیا آپ رات کی نیند کے بعد صبح اٹھتے ہیں تو بھی تھکاوٹ کا احساس طاری ہوتا ہے یا خود کو تازہ دم محسوس نہیں کرتے؟

تو درحقیقت اس کی وجہ چند عام چیزوں کا خیال نہ رکھنا ہے جو رات کی نیند کے بعد اگلے دن کو آپ کے لیے بہترین بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں 4 ایسے عناصر کو شناخت کیا گیا جو صبح اٹھنے پر آپ کو تازہ دم بناتے ہیں۔

اس تحقیق میں 833 افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے اکثر جڑواں تھے جس سے جینیاتی اثرات کو جاننے کا موقع ملا۔

تحقیق کے دوران 2 ہفتوں تک ان کی غذا، جسمانی سرگرمیوں، نیند کی عادات اور گلوکوز کی سطح کو جانچا گیا اور ان افراد سے روزانہ معلوم کیا گیا کہ صبح اٹھنے پر وہ کس حد تک اچھا محسوس کررہے تھے۔

تحقیق میں دریافت کیا جانے والا پہلا عنصر نیند کا دورانیہ تھا، یعنی زیادہ وقت تک سونے سے صبح اٹھنے پر لوگ جسمانی اور ذہنی طور پر زیادہ مستعد ہوتے ہیں۔

دن میں کی جانے والی ورزش دوسرا عنصر تھا۔

محققین کے مطابق دن میں زیادہ وقت تک جسمانی سرگرمیوں (رات کے وقت کم متحرک ہونا) اور اچھی نیند کے درمیان تعلق موجود ہے، جس سے صبح کے وقت لوگ زیادہ تازہ دم ہوتے ہیں۔

تیسرا عنصر ناشتہ ہے، صبح کی پہلی غذا میں کاربوہائیڈریٹس جیسے جو کا دلیہ، کیلے، دہی یا دیگر کا استعمال زیادہ چاق و چوبند بناتا ہے، جبکہ زیادہ پروٹین کا اثر الٹا ہوتا ہے۔

آخری عنصر ناشتے کے بعد بلڈ شوگر کی سطح ہے۔

اگر ناشتے کے بعد بلڈ شوگر کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے تو ذہنی و جسمانی مستعدی میں کمی آتی ہے جبکہ کاربوہائیڈریٹس پر مبنی ناشتے کے بعد سست روی سے بلڈ شوگر بڑھنے سے مستعدی بڑھتی ہے۔

آسان الفاظ میں ناشتے میں زیادہ میٹھے کا استعمال بلڈ شوگر کو بہت تیزی سے بڑھاتا ہے جس کا نتیجہ سستی کی شکل میں نکل سکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ چند عام چیزوں کا خیال رکھ کر نیند کا معیار بہتر بنایا جاسکتا ہے جس سے پورا دن اچھا گزرے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی جائے گی اور لوگوں کے روزمرہ کے رویوں اور نیند کے درمیان موجود تعلق کا جائزہ لیا جائے گا۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر کمیونیکیشن میں شائع ہوئے۔