30 جون ، 2023
اگر آپ کو ذہنوں کو الجھا دینے والی ایکشن تھرلر و سائنس فکشن فلمیں پسند ہیں تو 2011 کی یہ فلم ضرور پسند آئے گی۔
ڈائریکٹر ڈنکن جونز نے 2009 میں فلم 'مون' کے ساتھ اپنا ڈیبیو کیا تھا اور یہ فلم بھی اپنی نوعیت کی منفرد کہانی پر مبنی تھی مگر وہ ہر فرد کی پسند کے مطابق نہیں تھی۔
اس کے بعد 2011 میں ان کی فلم سورس کوڈ ریلیز ہوئی جس میں منفرد سائنس فکشن تصور پیش کیا گیا مگر اس کے ساتھ ساتھ کہانی میں تجسس اور عام ناظرین کی دلچسپی کا بھی پورا خیال رکھا گیا۔
اس کی کہانی ٹائم لوپ کے گرد گھومتی ہے۔
ٹائم لوپ ایک ایسا تصور ہے جس کے مطابق کوئی فرد اس میں پھنس جائے تو اسے مخصوص وقت (جیسے چند منٹ، چند گھنٹے یا ایک دن) یا تجربے سے بار بار گزرنا پڑتا ہے۔
فلم میں مرکزی کردار Jake Gyllenhaal نے ادا کیا جبکہ Michelle Monaghan، Vera Farmiga اور جیفری رائٹ بھی اہم کرداروں میں نظر آئے۔
اس فلم کی کہانی کولٹر اسٹیونز (Jake Gyllenhaal) کے گرد گھومتی ہے جو ایک امریکی فوج کا ہیلی کاپٹر پائلٹ ہوتا ہے، جس کا ہیلی کاپٹر افغانستان میں گرجاتا ہے۔
جب وہ ہوش میں آتا ہے تو ایک پرہجوم ٹرین میں سفر کررہا ہوتا ہے اور شیشے میں اس کا عکس مختلف چہرہ ظاہر کرتا ہے اور نام بھی Sean Fentress ہوتا ہے۔
اس کے سامنے کرسٹینا بیٹھی ہوتی ہے جو باتوں سے اس کی دوست نظر آتی ہے مگر کولٹر کو سمجھ نہیں آتا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔
8 منٹ بعد ایک دھماکا ہوتا ہے جس کے بعد کولٹر خود کو نیم تاریک کاک پٹ میں پاتا ہے اور ائیرفورس کیپٹن گڈون اس کی کمانڈنگ آفیسر کے طور پر کام کررہی ہوتی ہے۔
گڈون اسے بتاتی ہے کہ وہ ٹرین میں دھماکا کرنے والے ملزم کو ڈھونڈنے کے مشن پر ہے اور ایک بار پھر اسے واپس بھیج دیتی ہے۔
اس بار بھی کولٹر کی آنکھ ٹرین میں کھلتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ ایک اسمولیشن ٹیسٹ ہے، اس بار وہ بم ڈھونڈ لیتا ہے مگر بمبار کو شناخت نہیں کرپاتا۔
8 منٹ بعد دھماکے سے ایک بار پھر نیم تاریک کاک پٹ (جسے وہ کیپسول کہتا ہے) میں پہنچ جاتا ہے اور پھر اسے علم ہوتا ہے کہ ٹرین میں یہ دھماکا اسی صبح ہوا تھا اور اس کے بعد مزید دھماکے ہونے تھے۔
اسے ایک بار پھر ٹرین میں واپس بھیجا جاتا ہے، اس بار وہ کرسٹینا کے ساتھ ٹرین سے باہر ایک مشکوک شخص کا تعاقب کرتا ہے مگر وہ مجرم نہیں ہوتا جبکہ ایک حادثے میں وہ پھر مارا جاتا ہے۔
واپس آکر وہ ڈاکٹر Rutledge کو بتاتا ہے کہ اس نے کرسٹینا کو بچالیا ہے جس پر اسے بتایا جاتا ہے کہ اس نے ایسا صرف 'سورس کوڈ' کے اندر کیا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
ڈاکٹر کے مطابق سورس کوڈ ایک ایسی تجرباتی مشین ہے جس میں ٹرین حادثے میں ہلاک مسافروں کی موت سے قبل 8 منٹ کی یادداشت کو استعمال کرکے اس مخصوص وقت کو دوبارہ بنایا گیا ہے۔
بعد ازاں انکشاف ہوتا ہے کہ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد اس کے جسم کا بیشتر حصہ کٹ چکا ہے جبکہ وہ لائف سپورٹ سے منسلک ہے۔
اس کے دماغ میں ایسے سنسرز نصب کیے جاتے ہیں جس سے وہ خود کو صحت مند محسوس کرتا ہے مگر یہ بس دماغ کا دھوکا ہوتا ہے۔
آسان الفاظ میں مرکزی کردار ایک دہشت گردی کے واقعے میں ملوث فرد کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنے کے لیے بار بار اس تکلیف دہ سفر سے گزرتا ہے اور دھماکے سے مرتا ہے۔
مگر کیا اسے کامیابی ملتی ہے اور کیا یہ ٹیکنالوجی اس کی زندگی بدلنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں؟
ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے آپ کو فلم دیکھنا چاہیے جو آپ کو شروع سے آخر تک اسکرین کے سامنے سے ہٹنے نہیں دے گی۔
اس کااختتام بھی چونکا دینے والا ثابت ہوگا۔
اس فلم کے چند پس پردہ حقائق بھی بہت دلچسپ ہیں۔
فلم کے مرکزی کردار کے کان میں ڈائریکٹر نے ایک ائیربڈ لگایا تھا جس میں موسیقی کو چلایا جاتا تھا تاکہ یہ کردار پریشان اور بدحواس نظر آسکے۔
ویسے تو فلم میں شکاگو کو دکھایا گیا ہے مگر اس کی عکسبندی کینیڈا کے شہر مونٹریال میں ہوئی۔
کرسٹینا کے سابق بوائے فرینڈ کی کالر آئی ڈی فوٹو کے لیے ڈائریکٹر کی تصویر استعمال کی گئی۔
فلم کا بجٹ 32 ملین ڈالرز تھا اور اس نے 147 ملین ڈالرز کمائے مگر ڈائریکٹر کے مطابق فلم سے کوئی منافع نہیں ہوا۔
ایک گھنٹے 33 منٹ کے ساتھ یہ ڈائریکٹر کی سب سے مختصر فلم ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ کولٹر نے کسی بھی چکر میں ٹرین میں پورے 8 منٹ نہیں گزارے بلکہ سب سے طویل وقت 7 منٹ اور 30 سیکنڈ کا تھا۔