23 دسمبر ، 2022
پنجاب کے وزیراعلیٰ پرویزالٰہی نے عہدے پر بحال کیے جانے پرلاہور ہائیکورٹ کو اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کرادی جس کے بعد عدالت نے گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے پرویز الٰہی اور پنجاب کابینہ کو بحال کر دیا۔
گورنر کی جانب وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت دوسرے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو پرویزالٰہی نے بحال کیے جانے پر اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کرائی۔
پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر نے ان کی انڈر ٹیکنگ پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اگر وزارت اعلیٰ پر بحال کیا تو اسمبلی توڑنےکی ایڈوائس نہیں دوں گا۔
گورنر کے وکیل بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ایک معاملہ دیکھنے کی ضرورت ہے، یہ اعتماد کا ووٹ لے لیں ہم اپنا نوٹیفکیشن واپس لینے کو تیار ہیں، یہ اگلے پیر کو اعتماد کا ووٹ لے لیں یا یہ سات دن تک اعتماد کا ووٹ لے لیں۔
اس پر عدالت نے حکم دیا کہ آپ خود بھی اعتماد کا ووٹ لے لیں۔
عدالت نے گورنر کا حکم معطل کرتے ہوئے پرویز الٰہی اور پنجاب کابینہ کو بحال کر دیا۔ ہائیکورٹ نے پرویز الٰہی کی اسمبلی نہ توڑنےکی انڈر ٹیکنگ پرانہیں بحال کیا اور تمام فریقین کو 11 جنوری کیلئے نوٹس جاری کر دیے۔
پرویز الٰہی کے وکیل علی ظفر کا کہنا ہے کہ عدالت نے اجازت دی ہے کہ اگلی سماعت تک آپ اعتماد کا ووٹ لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔
قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ میں پرویزالٰہی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
دوران سماعت جسٹس عابد عزیز شیخ نے سوال کیا کہ اگر ہم ابھی وزیر اعلیٰ کوبحال کردیں توکیاآپ اسمبلی توڑدیں گے؟ یہ معاملہ تومنظوروٹو کیس میں بھی آیاتھا۔
عدالت نے پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر سے استفسار کیا کہ کیا آپ انڈر ٹیکنگ دے سکتے کہ اسمبلی نہیں ٹوٹے گی؟ اس پر علی ظفر کا کہنا تھاکہ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد اسمبلی نہیں ٹوٹ سکتی۔
عدالت میں معزز جج نے ریمارکس دیے کہ عدم اعتماد تو واپس ہو چکی ہے، اگرآپ اسمبلی توڑدیں گےتوپھریہ پٹیشن غیر موثر ہوجائےگی اورنیا کرائسس پیداہوگا۔
عدالت نے سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر سے کہا کہ ہم دس منٹ کا وقت دے رہے ہیں آپ اپنے موکل سے ہدایات لے لیں۔
تھوڑی دیر بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو بیرسٹر علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ ابھی انڈر ٹیکنگ دینے کیلئے وقت درکار ہے، عدالت وزیر اعلیٰ کو بحال کرکے خود اسمبلی تحلیل نہ کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
اس پر جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ ایسے تو عدالت عبوری ریلیف نہیں دے سکے گی، ہم وزیراعلیٰ کے اسمبلی تحلیل کے آئینی اختیار پر کیسے روک لگا سکتے ہیں۔
عدالت نے ایک بار پھر سماعت میں ایک گھنٹے کا وقفہ کیا۔