وہ چہرے جو حقیقت میں انسان نہیں

ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فوٹو بشکریہ thispersondoesnotexist
ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / فوٹو بشکریہ thispersondoesnotexist

اوپر موجود تصویر کو دیکھیں اور بتائیں اس چہرے میں کیا خاص بات ہے؟

درحقیقت اگر آپ کو لگتا ہے کہ چہروں کا تجزیہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں تو جان لیں کہ بیشتر افراد حقیقی چہروں اور کمپیوٹر سے تیار چہروں کے درمیان فرق نہیں کرپاتے۔

یہ آنے والے برسوں میں بہت بڑا مسئلہ ثابت ہوگا کیونکہ اب کمپیوٹر سسٹمز ایسے حقیقی نظر آنے والے چہرے تیار کررہے ہیں جن کا دنیا میں کبھی کوئی وجود ہی نہیں تھا۔

اوپر موجود تصویر بھی اس کی مثال ہے کیونکہ یہ حقیقی چہرہ نہیں بلکہ اسے آرٹی فیشل (اے آئی) ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کیا گیا ہے اور ایسی کوئی شخصیت دنیا میں موجود نہیں۔

یہ بھی ایک ایسا ہی مصنوعی چہرہ ہے / فوٹو بشکریہ thispersondoesnotexist
یہ بھی ایک ایسا ہی مصنوعی چہرہ ہے / فوٹو بشکریہ thispersondoesnotexist

جرنل آئی سائنس میں شائع ایک تحقیق میں دریافت ہوا کہ بیشتر افراد مصنوعی اور حقیقی چہروں میں فرق کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسے مصنوعی چہرے حقیقی افراد کے چہروں کے مقابلے میں زیادہ مستند محسوس ہوتے ہیں۔

تحقیق میں ایک دلچسپ بات یہ بتائی گئی کہ جو مصنوعی چہرے کم پرکشش ہوتے ہیں انہیں لوگوں کی جانب سے زیادہ حقیقی سمجھا جاتا ہے۔

کمپیوٹر سسٹم کا تیار کردہ ایک اور چہرہ / فوٹو بشکریہ thispersondoesnotexist
کمپیوٹر سسٹم کا تیار کردہ ایک اور چہرہ / فوٹو بشکریہ thispersondoesnotexist

محققین نے بتایا کہ اس طرح کے مصنوعی چہرے اس لیے حقیقی لگتے ہیں کیونکہ یہ ہماری ذہنی سوچ سے مماثلت رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لوگ ان چہروں پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں جن کو وہ حقیقی سمجھتے ہیں، مگر جب انہیں حقیقت کا علم ہوتا ہے تو پھر لوگوں پر سے ان کا اعتماد ختم ہوجاتا ہے، چاہے چہرے حقیقی ہو یا نہیں۔

اس طرح کے چہروں کے حقیقی یا مصنوعی ہونے کا فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے / فوٹو بشکریہ thispersondoesnotexist
اس طرح کے چہروں کے حقیقی یا مصنوعی ہونے کا فرق کرنا بہت مشکل ہوتا ہے / فوٹو بشکریہ thispersondoesnotexist

تحقیق کے مطابق اس طرح کی ٹیکنالوجی اس لیے بھی زیادہ مقبول ہورہی ہے کیونکہ لوگ اپنا زیادہ وقت انٹرنیٹ پر گزارتے ہیں، جہاں ان چہروں کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

محققین نے کہا کہ اگر ہم آن لائن تجربات کے حقیقی ہونے پر خود سے سوال کریں تو اس مسئلے سے نمٹنے میں مدد مل سکے گی۔

اس ٹیکنالوجی کا استعمال اب عام ہورہا ہے / فوٹو بشکریہ thispersondoesnotexist
اس ٹیکنالوجی کا استعمال اب عام ہورہا ہے / فوٹو بشکریہ thispersondoesnotexist

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ضروری ہے کہ لوگ ڈیجیٹل چہروں کے حوالے سے ناقدانہ سوچ کو اپنائیں، اس کے لیے وہ ریورس امیج سرچ کو استعمال کرسکتے ہیں۔

اب محققین کی جانب سے ایسے الگورتھمز کو بہتر بنانے پر کام کیا جائے گا جو مصنوعی چہروں کو شناخت کرسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان الگورتھمز کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا حصہ بنانے سے لوگوں کے لیے اصلی اور مصنوعی چہروں کے درمیان فرق کرنا آسان ہوجائے گا۔

مزید خبریں :