16 فروری ، 2023
اسلام آباد: سپریم کورٹ کا کہنا ہےکہ آئین ہرصورت 90 دن میں انتخابات کرانےکا پابند کرتا ہے، 90 دن میں انتخابات سےمتعلق آئین میں کوئی ابہام نہیں، شفاف انتخابات کرانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔
سپریم کورٹ میں سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر ٹرانسفرکیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے وکیل پنجاب حکومت سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا پھر بھی سی سی پی کو تبدیل کیوں کیا گیا؟ غلام محمود ڈوگر کوٹرانسفر کرنےکی اتنی جلدی کیا تھی؟
وکیل پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی اجازت سے غلام محمود ڈوگر کو دوسری بار تبدیل کیا گیا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ افسران کی تبدیلی میں الیکشن کمیشن کا کیا کردار ہے؟جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا کردار انتخابات کے اعلان کے بعد ہوتا ہے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ پنجاب میں کیئرٹیکر سیٹ اپ آنےکی وجہ سے الیکشن کمیشن سے اجازت لی گئی، آئین کے مطابق کیئرٹیکر سیٹ اپ آنے کے بعد 90 دنوں میں انتخابات ہونا ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ تو پھر بتائیں الیکشن کمیشن کہاں ہے؟ کیا الیکشن کمیشن کو سپریم کورٹ کے حکم کا علم نہیں تھا؟ الیکشن کمیشن اپنے کام کے علاوہ باقی سارے کام کر رہا ہے۔
جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا تھا کہ آدھے پنجاب کو ٹرانسفر کردیا گیا، کیا پنجاب میں ایسا کوئی ضلع ہے جہاں ٹرانسفرنہ ہوئی ہو؟
سماعت میں وقفےکے بعد چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔
آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کرانےکا پابند کرتا ہے: جسٹس اعجاز الاحسن
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آئین ہر صورت 90 دن میں انتخابات کرانےکا پابند کرتا ہے، انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، مقررہ وقت میں انتخابات نہ ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، 90 دن میں انتخابات سےمتعلق آئین میں کوئی ابہام نہیں، شفاف انتخابات کرانا صرف الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، آئین میں واضح درج ہےکہ نگران حکومت تقرر و تبادلے نہیں کرسکتی، نگران حکومت کو تبادلہ مقصود ہو تو ٹھوس وجوہات کے ساتھ درخواست دےگی، الیکشن کمیشن وجوہات کا جائزہ لےکر مناسب حکم جاری کرنےکا پابند ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ عدالت حکم دے تو تبادلے روک دیں گے،الیکشن کی تاریخ خود دیں تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو صوبےکی بات پر من وعن عمل نہیں کرنا ہوتا، الیکشن کمیشن نے تقرری و تبادلے میں دیکھنا ہوتا ہےکہ ٹھوس وجوہات ہیں یا نہیں۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ تفصیلی اجلاس میں صوبوں کوتقرری وتبادلےکی گائیڈ لائنزجاری کی ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن نےکس قانون کے تحت گائیڈ لائنز بنائیں؟
اختیارات روک دیےگئے، شفاف انتخابات کیسےکرائیں؟چیف الیکشن کمشنر
چیف الیکشن کمشنرکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے یکساں پالیسی کے تحت پورے صوبے میں تقرری وتبادلوں کی اجازت نہیں دی، کچھ کمشنر، ڈی سی، آر پی او وغیرہ کا ٹرانسفر ضروری تھا، الیکشن کمیشن کے اختیارات محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، آرمی کو سکیورٹی کا کہتے ہیں تو وہ نہیں دے رہے، ماتحت عدلیہ نے 2018 میں اسٹاف دیا، اب دینےکو تیار نہیں، حکومت الیکشن کے لیے پیسے نہیں دے رہی، الیکشن کمیشن کے اختیارات روک دیےگئے، صاف شفاف انتخابات کیسےکرائیں؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ نے اس مسئلے پر حکومت سے رابطہ کیا ہے؟
چیف الیکشن کمشنرنے جواب دیا کہ حکومت کو اپنے تمام ترمسائل سے آگاہ کیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ اگر چندکمشنرز، ڈی سی، آر پی او، ڈی پی اوز کے تبادلے نہ ہوئے تو انتخابات شفاف نہیں ہوں گے، عدالت حکم دے دےگی تو تبادلے نہیں کرنے دیں گے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابات کا معاملہ ہوا میں اڑا دیا:جسٹس اعجاز الاحسن
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ عدالت ایسا کوئی حکم نہیں دے رہی، آئین کا ایک ایک لفظ ہمیں پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے انتخابات کا معاملہ ہوا میں اڑا دیا مگر تقرری و تبادلےکی گائیڈ لائنز بنانا یاد ہے۔
چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن انتخابات کا اعلان نہیں کرسکتا، اس پر جسٹس مظاہرنقوی نے سوال کیا کہ کس قانون کے تحت الیکشن کمیشن انتخابات کا اعلان نہیں کرسکتا؟
چیف الیکشن کمشنر نےکہا کہ گورنر یا صدر انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں، آئین کے آرٹیکل105 کے تحت الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ گورنر انکار کر رہے ہیں توبال الیکشن کمیشن کی کورٹ میں آچکی، 90 دن میں انتخابات کراناہی آئین کی منشا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریخ مقرر کرے تو آئین کی خلاف ورزی ہوگی، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ مقررہ مدت میں انتخابات ہونا آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوگی، آپ آئین کےساتھ کھڑے ہوں، عدالت آپ کے پیچھےکھڑی ہوگی۔
سپریم کورٹ نےالیکشن کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر الیکشن کمیشن سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فل بینچ تقرری وتبادلے کا معاملہ سن رہا ہے، مناسب ہوگا کہ عدالت لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرے، عدالت کو دیکھنا ہےکہ اپیل آنے پر انتخابات کا کیس سنےگی یا یہی کیس۔
جسٹس مظاہرنقوی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تبادلہ کیا گیا، غلام محمود ڈوگر کا الیکشن کمیشن کے کہنے پر ہی تبادلہ ہوا، آپ نے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، سپریم کورٹ کو حکم پر عمل کرانےکا دوسرا طریقہ بھی آتا ہے، ایسے نہیں مانتے تو ہم نوٹس دے کر بھی طلب بھی کرسکتے ہیں۔
غلام محمود ڈوگرکے وکیل عابد زبیری کا کہنا تھا کہ ان کے مؤکل کو الیکشن کمیشن کے زبانی حکم پر تبدیل کیا گیا۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسارکیا کہ کیا زبانی احکامات پر تبادلےکی بات درست ہے؟ چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ چیف سیکرٹری نے 23 جنوری کو فون کرکے تبادلےکے متعلق کہا تھا، تحریری درخواست آنے پر 6 فروری کو باضابطہ اجازت نامہ دیا۔
جسٹس مظاہرنقوی نے کہا کہ کیا آپ کو سپریم کورٹ کے احکامات کا علم نہیں تھا؟ چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ جو ریکارڈ ملا اس میں سپریم کورٹ کے احکامات کا ذکر نہیں تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ صرف آئین وقانون کے پابند ہیں، اپنی پالیسیوں کے نہیں۔
سپریم کورٹ کی بار بار سرہلانے پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کی سرزنش
اس دوران سپریم کورٹ نے بار بار سرہلانے پر سیکرٹری الیکشن کمیشن کی سرزنش کردی۔
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ کون ہیں اور کیوں روسٹرم پر کھڑے ہوکر سرہلا رہے ہیں؟
سیکرٹری الیکشن کمیشن عمرحمید خان کا کہنا تھا کہ میں سیکرٹری الیکشن کمیشن ہوں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ جو بھی ہیں نشست پر بیٹھیں۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی اگرضروری نہیں تو الیکشن کمشنرکل پیش نہ ہوں۔
چیف الیکشن کمشنر کا بھی کہنا تھا کہ عدالت اجازت دے تو میری جگہ سیکرٹری یا سینیئر افسر کل پیش ہوجائےگا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ ادارے کے سربراہ ہیں آپ خود پیش ہوں، سکون سے سنیں گے۔
سپریم کورٹ نے سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سمیت پنجاب میں تمام افسران کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کو بھی کل پھر طلب کرلیا۔