12 مارچ ، 2023
کیا آپ نے کبھی فون سے ٹیکسٹ میسجز بھیجے ہیں؟ یا آپ نے مائیکرو سافٹ ورڈ کو کچھ لکھنے کے لیے استعمال کیا ہے؟
اگر کیا ہے تو آپ نے یقیناً غور کیا ہوگا کہ موجودہ عہد کی ٹیکنالوجی کس طرح املا کی غلطیوں کو خودکار طور پر درست کر دیتی ہے۔
اس فیچر کو آٹو کریکٹ کہا جاتا ہے جس کا مقصد معمولی غلطیوں کو خودکار طور پر ٹھیک کرکے صارفین کو اپنے کام جاری رکھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے دماغ میں یہ فیچر پیدائش سے ہی موجود ہوتا ہے؟
جی ہاں واقعی ہمارا دماغ ایک ایسی مشین ہے جس کی ٹیکنالوجی موجودہ عہد کی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں بہت زیادہ ایڈوانس ہے۔
مثال کے طور پر یہ انگلش جملہ پڑھیں' Tihs is a smaple snetecne to tset yuor brian's abiltiy to corrcet mitskaes'۔
اگر آپ انگلش پڑھ سکتے ہیں تو غلط املا کے باوجود اس جملے کو پڑھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی ہوگی بلکہ دھیان بھی نہیں دیا ہوگا کہ یہ غلط لکھا ہے، ماسوائے اس صورت میں اگر آپ پروف ریڈنگ کا کام کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات مدنظر رہے کہ ماہر ترین پرو ف ریڈر بھی سرسری نظر میں کسی تحریر کے الفاظ کے ہر حرف کو پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
تو ہمارا دماغ ایسا کیسے کرتا ہے اور وہ بھی بہت آسانی سے جس کے باعث ہمیں املا کی غلطیوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی؟
ایک سائنسی خیال تو یہ ہے کہ ہمارا دماغ الفاظ میں موجود غلطیوں کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کے مطابق فوری طور پر اسے ہمارے ذہن کے لیے ٹھیک بھی کر دیتا ہے۔
اس خیال کے مطابق زیادہ تر افراد کا دماغ کسی لفظ کے پہلے اور آخری حروف کو دیکھ کر اسے شناخت کرلیتا ہے جس کے لیے وہ لفظ کی لمبائی اور تناظر کو مدنظر رکھتا ہے۔
اس کے لیے اکثر جو جملہ استعمال کیا جاتا ہے وہ یہ ہے ' it deson’t mttaer in waht oredr the ltteers in a wrod aepapr, the olny iprmoatnt tihng is taht the frist and lsat ltteer are in the rghit pcale. The rset can be a toatl mses and you can sitll raed it wouthit pobelrm'۔
اس خیال کے مطابق اگر کسی لفظ کے پہلے اور آخری حروف درست ہیں اور درمیان کے حروف آگے پیچھے کر دیے گئے ہیں تو بھی ہمارا دماغ اس کو شناخت کر لیتا ہے اور سوچے بغیر پڑھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
اس حوالے سے ایک اور سائنسی نظریہ بھی موجود ہے۔
2018 کی ایک تحقیق میں کہا گیا تھا کہ دماغ کے آٹو کریکٹ فیچر کے پیچھے چھپے میکنزم کو سمجھنا ابھی ممکن نہیں۔
تحقیق کے مطابق پہلے اور آخری حروف کی بجائے دماغ کے لیے تصویر میں حروف کی شناخت کے لیے تناظر زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر ہم مخصوص حروف یا الفاظ کا مجموعہ دیکھتے ہیں تو ہمارا دماغ خودکار طور پر تصور کرلیتا ہے کہ اگلا لفظ یا حرف کیا ہوگا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اسی طرح کا دماغی میکنزم بولے جانے والے الفاظ کے لیے بھی کام کرتا ہے۔