13 مارچ ، 2023
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس کے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی ٹرائل کورٹ سے سنائی گئی سزائے موت کا حکم برقرار رکھا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
عدالت عالیہ نے مرکزی مجرم ظاہر جعفر کی ٹرائل کورٹ سے سنائی گئی سزائے موت کا حکم برقرار رکھا ہے، چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس اعجاز اسحاق پر مشتمل بینچ نے 21 دسمبرکو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
مرکزی مجرم ظاہرجعفر اور شریک مجرمان نے ٹرائل کورٹ سے سنائی گئی سزاؤں کو چیلنج کیا تھا۔
عدالت نے شریک مجرمان محمد افتخار اور جان محمد کی سزا کے خلاف اپیلیں بھی خارج کردیں، ٹرائل کورٹ نے شریک مجرمان کو 10-10 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
24 فروری کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے نور مقدم قتل کے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی۔
کیس میں نامزد ملزم ظاہر جعفر پر الزام تھا کہ اس نے 20 جولائی 2021 کو اپنے گھر میں نور مقدم کو قتل کیا، پولیس نے ظاہر جعفر کو خون آلود قمیض میں سیکٹر ایف سیون اسلام آباد کے گھر سے گرفتار کیا اور آلہ قتل بھی برآمد کیا۔
پولیس تفتیش میں معلوم ہوا کہ مرکزی ملزم ظاہرجعفر وقوعہ سے قبل اپنے والدین ذاکرجعفر اورعصمت آدم جی سے مسلسل رابطے میں رہا۔
پولیس کے مطابق والدین نے پولیس کو اطلاع دینے کی بجائے تھراپی ورکس سے رابطہ کیا، تھراپی ورکس کی ٹیم جائے وقوعہ پہنچی تو ملزم ظاہرجعفر نے مبینہ طور پر تھراپی ورکس کے ملازم امجد کو چاقو کے وار کرکے زخمی کردیا، پولیس کے پہنچنے تک نورمقدم کا قتل ہوچکا تھا اور سربریدہ لاش موجود تھی۔
شواہد چھپانے اور جرم میں معاونت کے الزام میں پولیس نے قتل کے 5 روز بعد 25 جولائی کو ظاہر جعفرکے والدین ذاکرجعفر اور عصمت آدم جی سمیت دیگر ملزمان کو بھی گرفتار کرلیا۔
واقعےکی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آئی جس میں نور مقدم کو پہلی منزل سے چھلانگ لگا کر زخمی حالت میں گھرسے نکلنے کی کوشش کرتے اور ظاہرجعفر کو دست درازی کرتے دیکھا گیا، فوٹیج میں ملزم کے ملازمین بھی نظر آئے جنہوں نے کسی موقع پر ملزم کو روکنے یا نورمقدم کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔
اس کیس کا باقاعدہ ٹرائل20 اکتوبر2021 سے شروع ہوا اور25سماعتوں پر مشتمل رہا، پہلی پیشی سے ہی ملزم کبھی پولیس اور کبھی عدالت کے جج سے الجھتا اور کمرہ عدالت میں عجیب وغریب حرکتیں کرتا رہا، دوران سماعت مرکزی ملزم نے خود کو ذہنی مریض ثابت کرنے کے لیے ہرحربہ آزمایا، پولیس بھی ملزم کو کبھی اسٹریچر تو کبھی ویل چئیر پرعدالت لاتی رہی، ملزم کے وکیل نے طبی معائنے کے لیے درخواست بھی دائرکی جسے عدالت نے مسترد کردیا تاہم جیل کی میڈیکل ٹیم نے ظاہرجعفر کو جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل فٹ قرار دے دیا۔
19 گواہوں پرجرح مکمل ہونے کے بعد ملزمان کو ضابطہ فوجداری دفعہ 342 کے تحت سوالنامہ جاری کیا گیا جس میں ظاہرجعفر اپنے ہی اعتراف جرم سے مکرگیا، ظاہرجعفر نے ٹرائل کے دوران کیس کو غیرت کے نام پر قتل کا رخ دینے کی بھی کوشش کی، پھر مقتولہ پر منشیات کی پارٹی کا اہتمام کرنے کا الزام لگایا۔
مدعی وکیل شاہ خاور نے عدالت کو بتایا کہ نورمقدم قتل کیس میں سی ڈی آر، ڈی وی آر، فارنزک اور ڈی این اے پرمبنی ٹھوس شواہد سائنسی ٹیکنالوجی سے تصدیق شدہ ہیں۔
پراسیکیوٹر رانا حسن نے کہا کہ ظاہرجعفر جائے وقوعہ سے آلہ قتل کے ساتھ گرفتار ہوا، قمیض خون آلود تھی، عدالت اسے مثالی کیس بنانے کے لیے سخت سزا دے۔