مبینہ بیٹی کیس: بیان حلفی میں تو گارڈین شپ کا لکھا ہے، والد ہونے کا ذکرنہیں، جسٹس محسن

آپ درخواست کے قابل سماعت ہونے کو چھوڑیں اور ہاں یا ناں کرکے مسئلہ ختم کریں ورنہ اگلے الیکشن میں پھر کوئی یہ معاملہ لے کر آجائے گا: چیف جسٹس— فوٹو: فائل
آپ درخواست کے قابل سماعت ہونے کو چھوڑیں اور ہاں یا ناں کرکے مسئلہ ختم کریں ورنہ اگلے الیکشن میں پھر کوئی یہ معاملہ لے کر آجائے گا: چیف جسٹس— فوٹو: فائل

اسلام آباد ہائیکورٹ نے مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کوچھپانے پر عمران خان نااہلی کیس میں درخواست گزار کے وکیل کو 20 مارچ تک کیس کی تیاری اور معاونت کی ہدایت کر دی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں 3 رکنی لارجربینچ نے شہری محمد ساجد کی درخواست پر سماعت کی جس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو گزشتہ عام انتخابات میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ کو ظاہر نہ کرنے پر نااہل قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

چیف جسٹس نے عمران خان کے وکلا سے کہا کہ ویسے تو آپ کی سائیڈ سے بھی یہ 2 منٹ کا کیس ہے؟ یا آپ تسلیم کریں یا انکار کریں، پٹیشن ختم ہوجاتی ہے۔

عمران خان کے ٹیریان کیس میں دیے گئے بیان حلفی کی کاپی پیش کی گئی تو جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کیا آپ کے پاس یہی ایک ڈاکومنٹ دستیاب اور اسی پر انحصارہے؟ بیان حلفی میں تو گارڈین شپ کا لکھا ہے، والد ہونے کا تو کہیں ذکرنہیں۔

وکیل نے کہا کہ امریکی عدالت نے فیصلہ دیا کہ ٹیریان وائٹ عمران خان کی ہی بیٹی ہے، لڑکی کا نام ٹیریان جیڈ خان وائٹ اورموجودہ عمر31 سال ہے جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو عمران خان سے گارڈین شپ کی اجازت مانگی گئی، عمران خان اگر والد نہ ہوتے تو اجازت نامہ کیوں دیتے؟ عمران خان لڑکی کے والد تھے تو انہوں نے وہ اجازت دی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ کیلیفورنیا کی عدالت کا فیصلہ تو ایکس پارٹی کارروائی ہے، آپ کو انتہائی واضح الفاظ میں عمران خان کا اعتراف دکھانا ہوگا، لڑکی نے خود بھی کہا ہوعمران خان میرا والد ہے تو وہ عمران خان پربائنڈنگ نہیں، پاکستان میں بہت سے لوگ بچوں کے سرپرست ہیں مگر والد نہیں، بیٹی آکرکہہ سکتی ہے کہ یہ میرا باپ ہے، اسے والد ڈکلیئرکریں، کوئی دوسرا آکر کیسے یہ بات کہہ سکتا ہے جب متاثرہ لڑکی نہیں کہہ رہی؟کل کوئی آکر کہے گا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کرالیں۔

وکیل نے کہا کہ امریکی عدالت میں جب ولدیت کے ٹیسٹ کا معاملہ آیا تو وہ عدالتی کاروائی سے پیچھے ہٹ گئے۔ 

عدالت نے استفسار کیا کیا عدالتی کاروائی سے پیچھے ہٹنا اس بات کا ثبوت ہوسکتا ہے کہ وہی بچی کے والد ہیں؟ عدالت نے وکیل کو کیس ریکارڈ کے ساتھ بہتر معاونت کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 20 مارچ تک ملتوی کر دی۔

مزید خبریں :