15 مارچ ، 2023
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اسپیشل بینچ بنانے پر اعتراض اٹھادیا۔
سپریم کورٹ میں میڈیکل طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20 نمبر دینے کے بارے میں ازخود نوٹس پر سماعت ہوئی۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی اسپیشل بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اسپیشل بینچ بنانے پر اعتراض اٹھادیا اور اسپیشل بینچ میں کیس سننے سے انکار کردیا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ رولز میں کہاں درج ہے کہ اسپیشل بینچ بنایا جاسکتا ہے؟ سپریم کورٹ کا ریگولر بینچ کیسزکیوں نہیں سن سکتا؟ اتنا بھی کیا ضروری معاملہ تھا کہ لارجربینچ یا فل کورٹ کے بجائے خصوصی بینچ بنایا جائے؟ اٹارنی جنرل کیا اسپیشل بینچز بنائے جانے چاہئیں؟ہاں یا ناں میں جواب دیں۔
اس پر اٹارنی جنرل شہزاد عطاالٰہی نے جواب دیا کہ اگرعدالت اس معاملے پرنوٹس کرے گی توجواب دے دوں گا۔ وکیل پی ایم ڈی سی نے کہا کہ روایت پربھی عمل ہوتا ہے، ضروری نہیں کہ ہرچیز رولز یا آئین میں درج ہو۔
اس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا مارشل لاء لگ جائے تو اس کو بھی روایتی عمل سمجھ کرقبول کرلیں گے؟ جو آئین وقانون میں درج ہو اسی پرعمل کرنا ہوتا ہے، تین ججز کو 3 مختلف بینچز سے اکٹھا کرکے اس بینچ میں بٹھادیا ہے، یا تو کچھ اتنا اہم ہوتا کہ چھٹی کے دن عدالت لگتی اور خصوصی بینچ بنایا جاتا۔
ان کا مزید کہنا تھاکہ میڈیکل طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر20 اضافی نمبردینے کا حکم 14 ماہ پرانا ہے، اگر 20 فیصد اضافی نمبرحافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر دینے ہیں تو پارلیمان سے قانون سازی کرائیں، کیا پارلیمان کا احتساب نہیں ہوتا؟ کیا ججز قابل احتساب نہیں؟ میرے علم کے مطابق ججز کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ججزپرغیرضروری الزامات نہیں لگنے چاہئیں، اتنی دفعہ مارشل لاء لگ چکا ہے، پیمرا سمیت سب کی ذہنیت نہیں بدلی، کیا آپ ملک کو سکیورٹی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں؟ اگرمیں غلط کروں تو میرا کنڈکٹ کیوں زیربحث نہیں آسکتا؟
ان کا کہنا تھاکہ میڈیکل طلبہ کوحافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر اضافی نمبر دینا سمجھ سے بالاترہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے بتایاکہ صرف میڈیکل ڈگری ہی نہیں ہرشعبے میں حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر20 اضافی نمبر دیے جاتے ہیں۔
اس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یہ حساس معاملہ ہے، مسلمان حفظ اللہ کیلئے کرتا ہے، نمبر لینے کیلئے نہیں، کیا کسی مسیح کو انجیل حفظ کرنے پر 20 اضافی نمبر ملتے ہیں؟
انہوں نے اعتراض اٹھایاکہ کیس کو تبھی سنا جاسکتا ہے جب شفافیت سے مقرر ہوا ہو، شفاف طریقہ کارسے مقررنہ ہونے والے کیسزکے فیصلے پربھی سوالات اٹھتے ہیں، اس طریقہ کارسے یہ کیس نہیں سن سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کام کرنے کا طریقہ کار ایک معمہ ہے جو میری سمجھ سے بالاترہے۔