یہ عام نظر آنے والی چیز اے سی کے استعمال کی ضرورت ختم کر دے گی

یہ وہ نانو انک ہے / فوٹو بشکریہ Melbourne یونیورسٹی
یہ وہ نانو انک ہے / فوٹو بشکریہ Melbourne یونیورسٹی

سائنسدانوں نے ایک ایسی 'سیاہی' تیار کرلی ہے جو عمارات اور گاڑیوں میں ائیر کنڈیشنر (اے سی) کی ضرورت ختم کر دے گی۔

سائنسدانوں نے اسے دنیا کی پہلی فیز چینج انک قرار دیا ہے جو توانائی کے استعمال اور زہریلی گیسوں کے اخراج میں کمی میں مدد فراہم کر سکے گی۔

جرنل آف میٹریلز کیمسٹری میں شائع ایک تحقیق اس کانسیپٹ انک کے بارے میں بتایا گیا جس کی تیاری کے لیے نانو ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا ہے تاکہ ہر طرح کے ماحول میں درجہ حرارت کو کنٹرول کیا جاسکے۔

یہ انک درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کے لیے اردگرد کے ماحول میں ریڈی ایشن کی مقدار کو ایڈجسٹ کرتی ہے۔

آسٹریلیا کی Melbourne یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے محققین نے بتایا کہ اس طرح کی سیاہی سے کوٹنگ تیار کی جاسکتی ہے تاکہ عمارت کو گرم یا ٹھنڈا رکھے جاسکے، جس سے بجلی کی ضرورت میں کمی آئے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انسان عمارات، گھروں اور گاڑیوں کو گرم یا ٹھنڈا رکھنے کے لیے بہت زیادہ توانائی خرچ کرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ماحولیاتی نقصانات میں کمی کے لیے توانائی کے صرف ماحول دوست ذرائع پر انحصار نہیں کرسکتے، ہمیں توانائی کی مجموعی کھپت میں کمی لانے کی ضرورت ہے۔

محققین کے مطابق ہماری تیار کردہ سیاہی اپنے اردگرد کے ماحول کے مطابق ردعمل ظاہر کرتی ہے جس سے نہ صرف توانائی کے استعمال کی شرح میں کمی آتی ہے بلکہ ہم نے درجہ حرارت کنٹرول کرنے والے سسٹمز کی ضرورت بھی ختم کر دی ہے۔

اس سیاہی کو کسی عمارت کے اوپری حصے پر استعمال کرنے سے اندر سورج کی تپش سے نمایاں تحفظ مل سکے گا جبکہ رات کو وہ گرمائش فراہم کرنے کا کام کرے گی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ اس انک کو اسپرے یا چھڑکنے کے ساتھ ساتھ پینٹ (paint) اور عمارتی سامان کا حصہ بنا کر بھی استعمال کیا جاسکے گا۔

اسی طرح ملبوسات پر استعمال کرنا ممکن ہوگا جس سے بہت زیادہ گرم یا سرد موسم میں انسانی درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکے گی۔

محققین نے بتایا کہ نئی نانو ٹیکنالوجی نے اس ایجاد کو زیادہ بہتر بنایا ہے جو ہمارے ماحول کے لیے مفید ثابت ہوگی۔

فی الحال یہ سیاہی کانسیپٹ مرحلے سے گزر رہی ہے اور محققین کی جانب سے اس پر مزید کام کرکے عملی زندگی میں اس کے لیے استعمال کے تجربات کیے جائیں گے۔

اس کے بعد سیاہی کی بڑے پیمانے پر تیاری شروع ہوسکے گی اور ایسا چند سال تک ہی ممکن ہوگا۔

مزید خبریں :