30 مارچ ، 2023
سینیٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل منظور کرلیا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل ایوان میں پیش کرنے کی تحریک جمع کرائی۔
سینیٹ میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنےکی اپوزیشن کی تحریک مستردکردی گئی اور بل فوری طور پر منظور کرنے کی تحریک منظور کی گئی۔
اپوزیشن ارکان کی جانب سے سینیٹ میں احتجاج کیا گیا، اپوزیشن کے سینیٹرز چیئرمین سینیٹ کی ڈائس کے سامنے پہنچ گئے اور عدلیہ پر حملہ نامنظور کے نعرے لگائے۔
اس دوران سینیٹ سکیورٹی نے حکومتی اور اپوزیشن بینچز کے درمیان حصار بنالیا جس کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔
بل کو کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا، بل کے حق میں 60 اور مخالفت میں 19 ووٹ آئے۔
اپوزیشن نشستوں پر موجود فاٹا اور بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے و الے سینیٹرز نے بھی بل کی حمایت میں ووٹ دیا۔
بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا، بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے، نئی قانون سازی کے تحت نواز شریف، کو از خود نوٹس پر ملی سزا پر اپیل کا حق مل گیا، یوسف رضا گیلانی، جہانگیر ترین اور دیگر فریق بھی فیصلوں کو چیلنج کرسکیں گے۔
ووٹنگ سے قبل سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز برابر ہیں، ادارےکو مضبوط کرنےکے لیے شخصیت کو مضبوط کرنےکے بجائے نظام کو مضبوط کیا جائے، قومی اسمبلی نے گزشتہ روز سپریم کورٹ بل 2023 پاس کیا، پارلیمان کا اختیار ہےکہ وہ قانون سازی کرسکتی ہے، دو دہائیوں سے سپریم کورٹ میں نیا رجحان دیکھا، آئین کہتا ہےکہ حدود میں غیر ضروری مداخلت نہ کریں۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہاں بار بار ایگزیکٹو کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا، ایسے ایسے ازخود نوٹس لیے گیے جن میں گلیوں میں صفائی تک کے معاملات اٹھائے گئے، لیور اسپتال بھی چیف جسٹس کی ذاتی انا کی بھینٹ چڑھا، بار کی جانب سے از خود نوٹس کے خلاف قانون سازی کا مطالبہ کیا گیا، از خود نوٹس کی وجہ سے اربوں ڈالرز کے نقصان ریاست نے اٹھائے، ریکوڈیک اور اسٹیل ملز کا نقصان ہوا۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ اب سپریم کورٹ سے بھی اس حوالے سے بات آئی، اجتماعی سوچ ہی لوگوں کو آگے لےکر چلتی ہے، اب بینچ کے لیے کمیٹی میں تین ارکان فیصلہ کریں گے، آخری فل کورٹ اجلاس 2019 میں ہوا، جب 184 تین کے تحت از خود نوٹس ہو تو کمیٹی اس کا جائزہ لےگی، جہاں آئین کی تشریح درکار ہو تو پانچ ججز کا بینچ ہوگا۔
اس دوران پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر اور قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم نے بل پر بات کرنے کی کوشش کی جس پر چیئرمین سینیٹ نے انہیں بات کرنے سے روک دیا۔ چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ وقفہ سوالات پہلے مکمل ہو جانے دیں، میں بل اس وقت تک زیر غور نہیں لاؤں گا جب تک آپ بل پر بات نہ کر لیں۔
اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ آپ سے آٹے کی لائن نہیں بنتی آپ چلے ہیں سپریم کورٹ رولز بنانے، سپریم کورٹ کے رولز بنانا بالواسطہ حملہ ہے، آپ نے پہلے بھی عدلیہ میں تقسیم پیدا کی تھی، آپ سپریم کورٹ کو تقسیم کرنےکی کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے بل میں اپیل کے حق پر پہلے بات نہیں کی۔
شہزاد وسیم کا کہنا تھا کہ قائمہ کمیٹی میں ترمیم کی کہ ماضی کے کیسز میں بھی اپیل کا حق دیا جائے، آپ اپنا مدعا بیان کریں کہ آپ نے اپنے کیسز معاف کرانے ہیں، کیا سینیٹ میں بل میں ترمیم نہیں ہو سکتی، بل کو کمیٹی کے سپرد کریں اور وہ اپنی ترمیم لےکر آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ قوم کو بے وقوف بنانے کی روش ختم کریں، یہ اصلاحات کا نہیں مفادات کا بل ہے، اس کے ذریعے یہ ذاتی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں، آئین نے 90 روز میں الیکشن کرانےکا پابندکیا ہوا ہے، ان کو بل پاس کرانےکی جلدی کیوں ہے، الیکشن کمیشن کسی سازگار حالات کا انتظار نہیں کرتا، اسے وقت پر الیکشن کرانا ہوتا ہے۔
اپوزیشن ارکان نے مطالبہ کیا کہ بل کمیٹی کے سپرد کرنےکے لیے ووٹنگ کرائی جائے، پی ٹی آئی ارکان نے ایوان میں پوسٹر اٹھا لیے جن پر عدلیہ پر حملہ نا منظور درج تھا۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ بل کمیٹی کے سپرد ہونا چاہیے، اہم معاملےکو کمیٹی میں نہ بھیجنے کی اپنی حکومت میں بھی مخالفت کرتا تھا، بل کے وقت پر اعتراض ہے، ابھی اس سےمتعلق الیکشن کا کیس سپریم کورٹ کے پاس چل رہا ہے، سپریم کورٹ میں آئینی مسئلہ چل رہا ہے، اس پر بحث ہو رہی ہے، عدالت پوچھ رہی تھی آئین میں کہاں لکھا ہے پیسے نہ ہونے پر الیکشن لیٹ کیا جاسکتا ہے۔
سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ کیا ہم آئینی ترمیم کے بغیر 184/3 میں ترمیم کر سکتے ہیں، 184/3 میں صرف آئینی ترمیم کی جا سکتی ہے، آپ ایسے قانون پاس کریں گے تو آئندہ 15 دن میں یہ قانون کالعدم قرار دے دیا جائےگا۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کثرت رائے سے منظور کیا ہے۔