17 اپریل ، 2023
لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے عمران خان کی خود پر ملک بھر میں درج مقدمات کے خلاف درخواست فل بینچ کے روبرو سماعت کے لیے چیف جسٹس کو بھجوا دی، دوران سماعت عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت عید کی چھٹیوں میں زمان پارک میں آپریشن کرےگی، میرے پاس مصدقہ اطلاع ہے۔
لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان کی اپنے خلاف ملک بھر میں مقدمات کے اندراج کے خلاف درخواست کی سماعت جسٹس طارق سلیم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نےکی۔
عمران خان بھی سماعت کے موقع پر عدالت میں موجود تھے، دوران سماعت عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدرکا کہنا تھا کہ سرکاری مشینری کا عمران خان کے خلاف بھرپور استعمال ہو رہاہے، آج کے دن تک 141 کیسز درج ہو چکے ہیں، ہم نے 121کیسز کی تفصیلات درخواست کے ساتھ لگائی ہے، عدالت جو اندراج مقدمات کا سلسلہ چل رہا ہے اسے روک دے، تمام کیسز میں مدعی پولیس خود ہے، ہر چیز کی ایک لمٹ ہوتی ہے۔
بیرسٹر سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ وزیرآباد واقعہ سامنے ہے، اس میں بھی مدعی ہمیں نہیں بننے دیا گیا، ظل شاہ کیس میں بھی والد کو باہر کرکے پولیس کو مدعی بنا دیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ اگر آپ کاموقف ریکارڈ ہوگیا ہے تو پھر یہ مسئلہ نہیں رہتا۔
وکیل عمران خان کا کہنا تھا کہ ہر کیس میں دہشت گردی کی دفعہ لگ رہی ہے، عدالت اختیارات کے غلط استعمال پر خاموش نہیں رہ سکتی، پنجاب کے 80 کیسز ہیں، ہمیں سب محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے، اس درخواست میں عمران خان کا پیش ہونے کا فیصلہ درست ہے، روز آکر ضمانت لینا تو مسئلےکا حل نہیں ہے، اب عید آنے والی ہے جب عدالت کام نہیں کر رہی ہوگی، ابھی تک کسی کیس میں پولیس کوعمران خان کی تحویل کی ضرورت نہیں، ان دنوں میں پولیس کی جانب سےزمان پارک پرپھردھاوا بولنےکی توقع ہے، ان دنوں میں پولیس کو نیا مقدمہ درج کرنےکی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ آپ نے کہا تھا کہ وہاں آپریشن نہیں ہوگا، اب ان چھٹیوں میں انہوں نے آپریشن کرنا ہے، میرے پاس مصدقہ اطلاع ہےکہ یہ آپریشن کرنا ہے، عدالت انہیں روکے، یہاں تو جنگل کا قانون چل رہا ہے، پکڑپہلے لیتے ہیں پھر الزام بتاتے ہیں، اس آپریشن کی وجہ سے وہاں خون خرابہ ہو سکتا ہے، یہ الیکشن لڑنے سے ڈرے ہوئے ہیں، میں اس خطرے سے پہلے آگاہ کر رہاہوں کہ یہ سب ہونا ہے۔
عمران خان کے وکیل نےکہا کہ عید کے دنوں میں تو بارڈر پر سکون ہی رہتا ہے، الیکشن ہونے جا رہے ہیں ایسے اقدامات تو الیکشن سے روکنےکے مترادف ہیں، ایک سیاسی رہنما کو گرفتاری سے ڈرا کر عوام میں جانے نہیں دیا جا رہا۔
پنجاب حکومت کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ تفتیش کرنےکے لیے عدالت سے اجازت کی استدعا قانون کے مطابق نہیں، عدالتیں ایسی استدعا کو مسترد کرتی آئی ہیں، ایسی پٹیشن فائل کیسے ہو سکتی ہیں، عدالت کے پاس ایسی درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ درخواست میں وزیراعظم کو فریق بنایا ہے، یہ نکتہ ہم نے نوٹ کیا ہے، آئین پٹیشن میں وزیراعظم کو فریق بنانےکی اجازت نہیں دیتا، اس نکتےکی حد تک درخواست درست نہیں ہے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ آپ کےحکم کے باوجود انہوں نے وہاں ہلہ بول دیا، یہ تو عدالتی حکم کی خلاف ورزی کر جاتے ہیں، میں تو اس خون خرابےکو روکنے کی کوشش کر رہا ہوں، ہمیں تو اس سسٹم پر یقین ہی نہیں رہ گیا۔
عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا اور جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس فاروق حیدر چیمبر میں چلے گئے۔
وقفےکے بعد عدالت کے 2 رکنی بینچ نے درخواست فل بینچ کے روبرو سماعت کے لیے چیف جسٹس کو بھجوا دی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اسی نوعیت کی ایک درخواست پہلے بھی ہم فل بینچ کو بھجوا چکے ہیں, فل بینچ اسی نوعیت کے کیسز کی سماعت کر رہا ہے، چیف جسٹس یہ کیس بھی متعلقہ بینچ کے پاس بھجوا دیں.
خیال رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے خود پر ملک بھر میں درج مقدمات کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں سیکرٹری داخلہ، وزارت قانون، دفاع، سیکرٹری کیبنیٹ ڈویژن، چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب، اینٹی کرپشن، نیب، ایف آئی اے، وزیر اعظم، پیمرا اور الیکشن کمیشن کو فریق بنایا گیا ۔
عمران خان کا درخواست میں موقف ہے کہ ملک میں مجھ پر 121 ایف آئی آر درج کی گئیں، مقدمات کوئٹہ، کراچی، اسلام آباد اور لاہور میں درج کیےگئے ہیں، تحریک انصاف کے سپورٹرز کو نظربند اور گرفتار کیا جا رہا ہے، نگران صوبائی حکومت کی جانب سے انتقامی کارروائیاں کی گئی ہیں۔