بچوں کے ہاتھ میں اسمارٹ فون دینے سے ہونے والے بڑے نقصان کو جان لیں

یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو
یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی / فائل فوٹو

اپنے کاموں یا مصروفیت کے دوران بچوں کو خاموش یا ایک جگہ تک محدود رکھنے کے لیے انہیں اسمارٹ فون یا ٹیبلیٹ دے دیتے ہیں؟

آپ کی یہ عادت بچوں کی ذہنی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔

یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی۔

Sapien Labs کی اس تحقیق میں 18 سے 24 سال کی عمر کے لگ بھگ 28 ہزار نوجوانوں کے عالمی ڈیٹا کو استعمال کرکے بچپن میں اسمارٹ فون کے استعمال اور نوجوانی میں ذہنی صحت پر اس کے اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی۔

محققین کے مطابق یہ نوجوان درحقیقت لڑکپن سے اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بڑی ہونے والی پہلی نسل کا حصہ ہیں۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اگر بچوں کو پہلا اسمارٹ فون یا ٹیبلیٹ نوجوانی میں دیا جائے تو ان کی ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے۔

اس کے مقابلے میں جن بچوں کو 6 سال کی عمر میں پہلا فون مل جاتا ہے، 18 سال کی عمر میں ان کی ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خطرہ 42 سے 74 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ بچوں کو جتنی کم عمری میں اسمارٹ فون مل جاتا ہے، اتنا ہی بالغ ہونے پر ذہنی صحت پر منفی اثرات کا خطرہ بڑھتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس تحقیق کا مقصد موجودہ نوجوان نسل کی ذہنی صحت کے بحران کی وجوہات کو جاننا تھا تاکہ اس رجحان کو ریورس کیا جا سکے۔

اس سے قبل جنوری 2023 میں سنگاپور میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ بچپن میں اسکرینوں کے سامنے زیادہ وقت گزارنے اور 9 سال کی عمر میں ناقص دماغی افعال کے درمیان تعلق موجود ہے۔

تحقیق کے مطابق اسکرینوں کے سامنے زیادہ وقت گزارنے سے منصوبہ بندی کرنے، توجہ مرکوز کرنے، ہدایات کو یاد رکھنے اور ایک سے دوسرے کام کے درمیان آسانی سے سوئچ کرنے کی صلاحیت جیسے دماغی افعال متاثر ہوتے ہیں۔

یہ دماغی افعال جذبات کو کنٹرول کرنے، کچھ نیا سیکھنے، تعلیمی کامیابیوں اور دماغی صحت کے لیے اہم ہوتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ دماغی افعال سماجی، تعلیمی اور عملی زندگی میں کامیابی پر اثرانداز ہوتے ہیں اور ان سے ہی ہم اپنا خیال رکھنا بھی سیکھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ذہنی افعال کی نشوونما قدرتی طور پر بچپن سے بلوغت تک ہوتی ہے مگر روزمرہ کی زندگی کے تجربات سے ان پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بچپن میں اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے سے بچوں کو حقیقی دنیا سے سیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔

انہوں نے کہا کہ بالغ افراد سے رابطوں اور ان کی تعلیمات کا کوئی متبادل موجود نہیں۔

مزید خبریں :