Time 27 مئی ، 2023
پاکستان

آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کو کیا سزا ہوسکتی ہے؟

فوج کو عسکری تنصیبات پر حملوں کے تناظر میں حملے کا منصوبہ بنانے والوں اور ان کی ہدایات جاری کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کا اختیار دیا گیا ہے/ فوٹو سوشل میڈیا
فوج کو عسکری تنصیبات پر حملوں کے تناظر میں حملے کا منصوبہ بنانے والوں اور ان کی ہدایات جاری کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کا اختیار دیا گیا ہے/ فوٹو سوشل میڈیا

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو جلاؤ گھیراؤ اور دفاعی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت شروع ہوچکا ہے۔

کچھ روز قبل لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے جناح ہاؤس میں توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے 16 ملزمان کو کمانڈنگ افسر کے حوالے کردیا تھا ۔

لیکن اب  یہ سوال قابل غور ہے کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل ایکٹ کے تحت ٹرائل میں آنے والی شہریوں کو کتنی سزا سنائی جاسکتی ہے؟

برطانوی خبررساں ادارے ( بی بی سی ) کی ایک رپورٹ میں اس حوالے سے فوج کی جی ایچ کیو ایجوٹنٹ جنرل (جیگ) برانچ سے منسلک رہنے والے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم  سے کی گئی  گفتگو درج کی گئی ہے۔

آرمی ایکٹ کی کچھ شقیں عام شہریوں پر بھی لاگو ہوتی ہیں

رپورٹ کے مطابق عام طور پر  جرائم میں مرتکب فوجی اہلکاروں کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہوتا ہے لیکن اس ایکٹ کی چند شقیں عام شہریوں پر بھی لاگو ہوتی ہیں جس  کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کہا جاتا ہے۔

 کس جرم کی بنا پرآرمی ایکٹ کے تحت کارروائی  کی جاسکتی ہے؟

2015 میں 21 ویں آئینی اور آرمی ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کے تحت مادر وطن  کیخلاف جنگ کرنے والے، قومی اور فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے یا پھر دہشت اور بد امنی کی فضا پیدا کرنے والے افراد کو بھی آرمی ایکٹ کے تحت سزائیں دی جاسکتی ہیں۔

 بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم  نے بتایا کہ  آرمی ایکٹ کے سیکشن ٹو ون ڈی میں موجود 2 شقوں کے تحت فوجی اداروں کیخلاف اور فوجیوں کے حکم نہ ماننے پر اکسانے یا پھر عسکری راز کسی کو فراہم کرنے والے افراد ان سزاؤں کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔

 کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم   کے مطابق فوجی کمان کے خلاف بغاوت کرنے، اشتعال دلانے ، اُکسانے یا ترغیب و تحریک دینے والے افراد کے خلاف اسی سیکشن کی شق کے تحت مقدمہ چلایا جاسکتا ہے، اس سیکشن کے تحت کسی بھی سویلین کا معاملہ 31 ڈی میں لا کر  کارروائی  کی جاسکتی  ہے تاہم اس سے قبل شہری کے خلاف کسی تھانے میں مقدمے کے اندارج اور مجسٹریٹ کی اجازت ضروری ہے۔

کرنل انعام کے مطابق اس سیکشن کے تحت چلنے والی عدالتی کارروائی میں سزاؤں کا انحصار جرم کی نوعیت پر  ہوتا ہے تاہم مجرم کو 2 سال سے عمر قید حتیٰ کہ سزائے موت کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔

کرنل (ر) انعام  نے مزید بتایا کہ فوج کو  عسکری تنصیبات پر حملوں کے تناظر میں حملے کا منصوبہ بنانے والوں اور ان کی ہدایات جاری کرنے والوں کے خلاف ٹرائل کا اختیار دیا گیا ہے، اس صورت میں آرمی ایکٹ کے تحت یہاں سیکشن 59 اور 60 لگائے گئے ہیں اور سیکشن 60 کا مطلب سہولت کاری ہے۔

مزید خبریں :