اکثر اچانک کچھ میٹھا کھانے کی طلب کیوں ہوتی ہے؟

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

یقیناً آپ بھی ان افراد میں شامل ہیں جنہیں اکثر و بیشتر اچانک کچھ میٹھا کھانے کی طلب ضرور ہوتی ہے۔ 

اس میٹھے کی طلب کو ختم کرنے کے لیے کیک، آئس کریم، میٹھائی یا پھر چاکلیٹ کھانے کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے۔ 

یہ طلب کبھی کبھار ہو تو اچھا ہے پر اگر آپ کو اس کی عادت ہوگئی ہے اور ہر بار آپ کو کچھ زیادہ ہی میٹھا کھانا پڑتا ہے  تو اس کے  نتائج خراب ہوسکتے ہیں اور آپ کی صحت کو نقصان ہوسکتا ہے۔

میٹھے کا زیادہ استعمال ذیابیطس جیسی خطرناک بیماری کا بھی باعث بنتا ہے۔

اچانک کچھ میٹھا کھانے کی طلب ہونے کی کچھ ممکنہ وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔ 

جسم میں پروٹین کی کمی:

آپ کے جسم میں پروٹین کی کم مقدار ہونے کی وجہ سے آپ کو اچانک میٹھا کھانے کی طلب ہوسکتی ہے۔ سمپل کاربوہائیڈریٹ خون میں تیزی سے داخل ہوتے ہیں، جو بلڈ شوگر اور پھر انسولین کی سطح کو بڑھاتے ہیں۔ 

آپ کی خوراک میں  فائبر، پروٹین کی کمی کی وجہ سے سمپل کاربوہائیڈریٹ آپ کو جلد ہی مزید کچھ میٹھا کھانے پر ذور دیتے ہیں۔

کم یا خراب نیند:

نیند Ghrelin اور Leptin جیسے ہارمونز کے نظام کو کنٹرول کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، یہ ہارمونز بھوک کی مقدار کو  بڑھاتے اور کم کرتے ہیں۔کم نیند دماغی  نظام کو کمزور کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں جنک  فوڈ اور میٹھا کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔

بہت زیادہ ذہنی  تناؤ:

ذہنی تناؤ آپ کے کورٹیسول کی سطح کو متاثر کرتا ہے، یہ ایک ایسا ہارمون ہے جس کی مقدار زیادہ ہونے پر آپ کے گلوکوز اور انسولین کی گردش کرنے والی سطح کو تبدیل کر دیتا ہے اور پھر  میٹھے کا استعمال سیروٹونن کو بڑھاتا ہے،جو کہ  ایک نیورو ٹرانسمیٹر  ہے جو موڈ اور بھوک کو کنٹرول کرتا ہے۔

غذائی اجزاء کا عدم توازن:

جسم میں کیلشیم، زنک، کرومیم، اور میگنیشیم کا عدم توازن میٹھا کھانے کی خواہش پیدا کرسکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اکثر اچانک میٹھا کھانے کی طلب ہوتی ہے۔

میٹھے کی طلب کو کیسے ختم کیا جائے؟

پھلوں کا استعمال:

تازہ پھلوں کو اپنی غذا کا حصہ بنالیں۔ان پھلوں سے آپ کی میٹھے کی طلب بھی ختم ہوجائے گی اور اس سے جسمانی صحت کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

پانی کا استعمال

جب بھی آپ کو کوئی میٹھی چیز کھانے کی طلب ہو تو بس ایک گلاس پانی پی لیں۔ یہ آپ کی خوراک میں کوئی اضافی کیلوریز شامل کیے بغیر آپ کا پیٹ بھر دے گا۔

نوٹ: یہ مضمون طبی جریدوں میں شائع تفصیلات پر مبنی ہے، قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ کریں۔

مزید خبریں :