ناسا کے ’اڑن طشتریوں‘ کے شواہد سے متعلق عوامی اجلاس میں اہم انکشافات

ایسے واقعات جن کیلئے واقعی کوئی وضاحت نہیں دی جاسکتی اور جنہیں پراسرار کہا جا سکتا ہے ان کی تعداد دو سے پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہے: ناسا — فوٹو: فائل
ایسے واقعات جن کیلئے واقعی کوئی وضاحت نہیں دی جاسکتی اور جنہیں پراسرار کہا جا سکتا ہے ان کی تعداد دو سے پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہے: ناسا — فوٹو: فائل

ناسا کی جانب سے گزشتہ برس اڑن طشتریوں یعنی اڑنے والی غیر شناخت شدہ اشیاء (Unidnetified Flying Objects :UFOs) کے سائنسی مطالعے کیلئے قائم کیے گئے پینل نے اپنی رپورٹ کے اجراء سے قبل بلائے گئے عوامی اجلاس میں اہم انکشافات کر دیے۔

ناساکے  پینل کے مطابق مطالعے کے دوران  آٹھ سو سے زائد اڑنے والی پراسرار چیزوں کے دیکھے جانے کی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا لیکن  تمام رپورٹس کا بہت ہی مختصر حصہ ایسا ہے جسے واقعی ناقابل وضاحت اور پراسرار کہا جا سکتا ہے۔

ناسا اور پینٹاگون نے  اڑن طشتریوں کے دیکھے جانے کے معاملات کیلئے  ’یو ایف اوز‘ کی اصطلاح کو تبدیل کرکے (unidentified anomalous phenomena) ’یو اے پی‘ کردیا، مزید وضاحت کیلئے کہا گیا کہ ’یو اے پی‘ کی اصطلاح ایسی اڑتی ہوئی چیزوں  سے متعلق استعمال کی جائے گی جنہیں سائنسی نقطہ نگاہ سے  جہاز یا فطری مظہر قرار نہ دیا جا سکے۔

پینل نے اپنے پہلے عوامی اجلاس میں انکشاف کیا کہ رپورٹ کیے گئے واقعات میں اکثر ایسے ہیں جن کی وضاحت کی جا سکتی ہے لیکن کچھ ہی واقعات ایسے ہیں جو واقعی  پراسرار ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع کے آل ڈومین اینامولی ریسولیوشن آفس کے ڈائریکٹر اور پینل کے رکن کرک پیٹرک کا کہنا تھا کہ تحیقات کے دوران ماہانہ  50 سے 100 رپورٹس کا جائزہ لیا گیا، ایسے واقعات جن کیلئے واقعی کوئی وضاحت نہیں دی جاسکتی اور جنہیں پراسرار کہا جا سکتا ہے ان کی تعداد دو سے پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ویڈیوز کا جائزہ لیتے وقت امریکی نیوی کے ایک جہاز سے ریکارڈ کی گئی ایک ویڈیو میں چمکتے ہوئے نقطوں کی ایک قطار آسمان میں پھیلی ہوئی نظر آئی تھی،  امریکی جہاز ان چمکتے ہوئے نقطوں  کو آگے بڑھنے میں رکاوٹ ڈالنے میں ناکام رہتا ہے، وہ نقطے ایک کمرشل جہاز کی طرح محسوس ہوتے ہیں جو کہ ایک بڑے ائیرپورٹ کی طرف بڑھ رہا ہو۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ کچھ واقعات انتہائی پراسرار ہیں۔ پینٹاگون کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2004 سے 2021 تک امریکی پائلٹس کی جانب سے 144 مرتبہ اڑتی ہوئی پراسرار چیزیں دیکھے جانے کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے، ان میں سے ایک تو انتہائی پراسرار تھا جس کے بارے میں دفاعی حکام کا کہنا ہے کہ اس چیز کے ماورائے ارضی ہونے کے امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔

کرک پیٹرک کا کہنا تھا کہ پرائیویسی خدشات کی حدود و قیود نے ہماری تحقیق کا دائرہ براعظم متحدہ امریکا تک ہی محدود رکھنے پر مجور کیا۔  حالانکہ ہم اس سے باہر بھی ایسے واقعات کی نشاندہی کرسکتے تھے، جائزہ لے سکتے تھے تاہم بہت سارے لوگوں کو یہ بات پسند نہیں آتی اور وہ اعتراض کرتے ہم ان پر کی پرائیویسی میں مداخلت کر رہے ہیں۔

ناسا کے یو اے پی ٹیم کے سربراہ ڈیوڈ اسپرگل کا کہنا تھا کہ یو اے پی سے متعلق مواد کا جائزہ لینا اور اس کے تشریح کرنا کبھی کبھی مشکل اور بہت ہی ٹیڑھا کام ہو جاتا ہے۔ انہوں نے آسٹریلین ریسرچرز کی جانب سے پکڑی گئی ریڈیو ویوز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان ویوز کا اسٹرکچر بہت ہی عجیب تھا، وہ لوگ سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے کہ ہو کیا رہا ہے، اور پھر انہوں نے ایک دن ان سب ویوز کو ایک ساتھ جڑتے ہوئے دیکھا، جوکہ ان کے کھانا گرم کرنے کے مائیکروویوز سے نکل رہی تھی۔

سابقہ خلاباز اسکاٹ کیلی نے آپٹیکل الیوژن سے متعلق کہانی سناتے ہوئے کہا کہ وہ اور ان کے ساتھی پائلٹ ورجینیا بیچ کے اوپر اڑ رہے تھے، تب انہیں محسوس ہوا کہ وہ کسی یو ایف او کے اوپر اڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے جلدی جلدی کنفرم کرنے کی کوشش کی اور واپس جاکر دیکھا تھا ہم لوگ بارٹ سمپسن نامی کارٹون کے ایک بڑے  غبارہ کے اوپر تھے۔

سماجی رسوائی اور ہراسمنٹ کا خوف بھی اس فیلڈ میں کئی واقعات رپورٹ نہ ہونے کا سبب بنتا ہے، ماہرین کا کہنا تھا کہ کمرشل پائلٹس ایسے اڑن طشتریوں سے جڑی رسوائی کے ڈر سے عجیب مناظر رپورٹ کرنے سے کتراتے ہیں جبکہ کچھ سائنسدانوں کو ان معاملات پر اپنی تحقیق کی وجہ سے آن لائن ہراسمنٹ اور طنز کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ ہراسمنٹ صرف یو اے پی فیلڈ میں مزید کام کرنے سے متعلق خوف اور سائنسی پراسیس کی رکاوٹوں میں اضافہ کر سکتی ہے، اور دوسرے لوگوں کو اس اہم معاملے پر ریسرچ سے روک دیتی ہے۔

گزشتہ روز ہونے والا اجلاس یو اے پیز سے متعلق رازداری والے ناسا کی نقطہ نظر میں تبدیلی کی ایک اہم علامت سمجھا جا رہا ہے،  اجلاس کے اختتام پر ناسا کے پینل نے لوگوں کے سوالات کے جواب دیے  جن میں سے ایک سوال تھا کہ ناسا کیا چھپانے کی کوشش کر رہا ہے؟ جس پر ماہرین نے جواب دیا کہ ہم شفافیت پر یقین رکھتے ہیں اس لیے آج آپ سب کے سامنے یہاں موجود ہیں۔

مزید خبریں :