06 جولائی ، 2023
افریقا کے درمیان سے گزرنے والی ایک بہت بڑی دراڑ اس براعظم کو سست روی سے 2 حصوں میں تقسیم کر رہی ہے اور اس عمل سے زمین کا چھٹا سمندر بھی تشکیل پا سکتا ہے۔
یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ مشرقی افریقی دراڑ کم از کم 2 کروڑ 20 لاکھ سال پرانی ہے مگر گزشتہ چند دہائیوں کے دوران اس میں سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔
یہ دراڑ ہر سال ایک انچ کشادہ ہو رہی ہے اور ایسا زمین کی تہہ سے بہت زیادہ گرم چٹانیں اوپر آنے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ افریقا کے 2 براعظموں میں تقسیم ہونے کا امکان آئندہ 50 لاکھ سال تک نہیں، مگر جب بھی ایسا ہوگا تو صومالیہ، آدھے ایتھوپیا، کینیا اور تنزانیہ پر مشتمل ایک نیا براعظم بن جائے گا۔
امریکی ادارے ورجینیا ٹیک کی اس تحقیق میں شامل افراد نے بتایا کہ ابھی ہمیں نہیں معلوم کہ موجودہ رفتار سے پھیلنے والی یہ دراڑ کس طرح نئے سمندر کی تشکیل کا باعث بنے گی۔
انہوں نے کہا کہ ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ دراڑ پھیلنے کی رفتار بڑھ جائے گی یا نہیں۔
تحقیق کے مطابق 2005 ایتھوپیا کے صحرا میں 35 میل طویل دراڑ نمودار ہوئی تھی اور اس میں ایک نئے سمندر کی تشکیل کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
اسی طرح 2018 میں کینیا میں شدید بارشوں سے ایک اور دراڑ بنی جس نے لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
محققین نے بتایا کہ توقع ہے کہ مستقبل میں ایسی مزید دراڑیں نمودار ہوں گی۔
ان کا ماننا ہے کہ 2 ٹیکٹونیک پلیٹیں ایک دوسرے سے دور ہو رہی ہیں۔
صومالی پلیٹ مشرق جبکہ نوبین پلیٹ مغرب کی جانب بڑھ رہی ہے جس کے باعث مزید دراڑیں نمودار ہو سکتی ہیں۔
ان پلیٹوں کی سرگرمیوں کا اولین مشاہدہ 2004 میں کیا گیا تھا اور اس وقت خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ زمین کی تہہ سے زیادہ حرارت اوپر آنے کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔
اب ورجینیا ٹیک کی تحقیق میں بظاہر اس خیال کی تصدیق کی گئی ہے۔
تحقیقی ٹیم نے خطے کے 3 ڈی ماڈل تیار کیے جس سے معلوم ہوا کہ زمین کی تہہ سے بہت زیادہ گرم چٹانیں اوپر کی جانب بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے اس خطے کا 12 سال سے زائد عرصے تک جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ٹیکٹونیک پلیٹیں ایک دوسرے سے دور مشرق اور مغرب کی جانب بڑھ رہی ہیں جو بہت غیر معمولی ہے اور اس کا مشاہدہ کہیں اور نہیں ہوا۔
محققین نے کہا کہ اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ براعظم کس طرح ٹکڑوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل آف جیو فزیکل ریسرچ : سولڈ ارتھ میں شائع ہوئے۔