27 جولائی ، 2023
اسلام آباد: سینیٹ نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظور کر لیا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں سینیٹ کا اجلاس ہوا جس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لیے پیش کیا جسے ایوان نے منظور کرلیا۔
بل کے متن کے مطابق قانون کے ماتحت فوجی اہلکار سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا، متعلقہ اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفیٰ اور برطرفی کے 2 سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکے گا، حساس ڈیوٹی پر تعینات اہلکار 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا جب کہ سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پرپابندی کی خلاف ورزی پر 2 سال تک سزا ہوگی۔
بل کے تحت الیکٹرانک کرائم میں ملوث فوجی اہلکار جس کا مقصد پاک فوج کوبدنام کرنا ہو اس کے خلاف الیکٹرانک کرائم کے تحت کارروائی ہوگی، آرمی ایکٹ کے تحت کوئی اہلکار اگرفوج کو بدنام کرے یا اس کے خلاف نفرت پھیلائے، اسے 2 سال تک قید اور جرمانہ ہوگا۔
بل میں کہا گیا ہےکہ سرکاری حیثیت میں ملکی سلامتی اور مفاد میں حاصل معلومات کے غیر مجاز انکشاف پر 5 سال تک سخت سزا دی جائے گی، پاکستان اور افواج پاکستان کے مفادکے خلاف انکشاف کرنے والے اہلکار سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔
ترمیمی بل کے مطابق حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی اہلکار ڈیجیٹل، الیکٹرانک یا سوشل میڈیا پر کوئی ایسی بات نہیں کرے گا جس کا مقصد فوج کو اسکینڈلائز کرنا یا اس کی تضحیک کرنا ہو، جرم کرنے والے کے خلاف کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت ہوگی، آرمی ایکٹ کےتحت کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ اہلکار اگرفوج کو بدنام کرے یا اس کے خلاف نفرت انگیزی پھیلائے تو اسے آرمی ایکٹ کے تحت 2 سال تک قید اور جرمانہ ہوگا۔
بل کے متن میں کہا گیا ہے کہ فوج پر کمانڈ اینڈ کنٹرول وفاقی حکومت کا اختیار ہو گا جبکہ آرمی چیف فوج کے انتظامی معاملات دیکھیں گے، غیر ملکی شہریت، دوہری شہریت اور 18 سال سے کم عمر شہری کو پاک فوج میں کمیشن نہیں ملےگا۔
ایکٹ میں بتایا گیا ہے کہ کسی بھی فوجی افسر کو 60 سال کی عمر تک ملازمت پر برقرار رکھا جا سکے گا جبکہ وفاقی حکومت آرمی چیف کی مشاورت سے 60 سال کی عمر تک ملازمت پر برقرار رکھ سکے گی، کسی بھی آرمی افسر کی عہدے پر تعیناتی، دوبارہ تعیناتی اور توسیع کے ساتھ ری ٹینشن کا لفظ شامل کیا جائے گا۔
ترمیمی بل کے مطابق آرمی چیف اب اس نئے ایکٹ کے مطابق قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کی ہدایات جاری کر سکے گا اور آرمی چیف اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں اپنے ماتحت کسی بھی افسر کو تفویض کر سکے گا۔