18 اگست ، 2023
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت سائفر کیس میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
باخبر سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے چند روز قبل سابق وزیراعظم کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کی شق نمبر پانچ کا استعمال کیا گیا تھا۔
میڈیا کی جانب سے بتایا گیا کہ ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے عمران خان کے خلاف مقدمہ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد درج کیا کہ عمران خان دانستہ خفیہ دستاویز کے غلط استعمال میں ملوث تھے۔ جمعرات کو سرکاری ذرائع نے اس نمائندے کے رابطہ کرنے پر تصدیق کی کہ عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 5 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
تاہم حکام ایف آئی آر کی کاپی شیئر کرنے سے گریزاں تھے۔ سیکشن 5 کے تحت جرائم اگر عدالت میں ثابت ہو جائیں تو دو سے 14 سال تک قید کی سزا اور کچھ کیسز میں موت کی سزا بھی سنائی جا سکتی ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 5 کے مطابق (۱) اگر کسی شخص کے پاس کوئی خفیہ سرکاری کوڈ یا پاسورڈ یا کوئی خاکہ، منصوبہ، ماڈل، مضمون، نوٹ، دستاویز یا معلومات ہے جو کسی ممنوعہ جگہ یا اس سے وابستہ کسی چیز کے متعلق ہے، یا جو اس ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بنایا یا حاصل کیا گیا ہے۔
یا جسے [حکومت] کے تحت عہدہ رکھنے والے کسی شخص کی طرف سے بھروسہ کرتے ہوئے فراہم کیا گیا ہے، یا جسے اس شخص نے اپنے عہدے کی وجہ سے حاصل کیا ہے یا رسائی حاصل کی ہے، یا ایک ایسے شخص کے طور پر جس نے حکومت کی طرف سے معاہدہ کیا تھا یا کیا ہے، یا کسی ایسے شخص کی حیثیت سے جو ایسا عہدہ یا معاہدہ رکھنے والے شخص کا ملازم ہے۔
اس نے a) جان بوجھ کر کوڈ یا پاس ورڈ، خاکہ، منصوبہ، ماڈل، مضمون، نوٹ، دستاویز یا معلومات مجاز شخص، عدالت یا ریاستی مفاد میں کسی ضروری عہدیدار کے علاوہ کسی شخص کو بتاتا ہے، یا b) اپنے پاس موجود معلومات کو کسی غیر ملکی طاقت کے فائدے کیلئے استعمال کرتا ہے یا کسی دوسرے طریقے سے ریاست کے مفاد کو نقصان پہنچاتا ہے، یا c) خاکہ، منصوبہ، ماڈل، مضمون، نوٹ یا دستاویز کو اپنی تحویل یا کنٹرول میں رکھتا ہے جبکہ اسے ایسا کرنے کا حق نہ ہو، یا جب اسے اپنے پاس رکھنا اس کے فرائض کیخلاف ہو۔
یا پھر وہ مجاز عہدیدار کی جانب سے جاری کردہ اس چیز کی واپسی یا اسے ختم (ڈسپوز) کرنے کے احکامات کی تعمیل میں ناکام ہو، d) خاکہ، پلان، ماڈل، آرٹیکل، نوٹ، دستاویز، خفیہ سرکاری کوڈ یا پاس ورڈ یا معلومات کو سنبھالنے میں یا پھر اس کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہو، تو وہ اس سیکشن کے تحت جرم کا مرتکب ہو گا۔
(2) اگر کوئی شخص رضاکارانہ طور پر کوئی خفیہ سرکاری کوڈ یا پاس ورڈ یا کوئی خاکہ، منصوبہ، ماڈل، مضمون، نوٹ، دستاویز یا معلومات حاصل کرتا ہے جس کے بارے میں جاننے یا اسے وصول کرتے وقت یہ یقین کرنے کی معقول وجہ ہے کہ کوڈ، پاس ورڈ ، خاکہ، منصوبہ، ماڈل، مضمون، نوٹ، دستاویز یا معلومات اس ایکٹ کی خلاف ورزی میں فراہم کی گئی ہیں، تو وہ اس سیکشن کے تحت کسی جرم کا مرتکب ہوگا۔ (3) اس دفعہ کے تحت کسی جرم کا مرتکب شخص قابل سزا ہو گا: (a) اگر ارتکاب جرم ذیلی دفعہ (1) کی شق (a) کی خلاف ورزی ہے اور اس کا مقصد، بلاواسطہ یا بالواسطہ، کسی غیر ملکی طاقت کے مفاد میں یا فائدہ ہو یا پھر یہ معلومات دفاعی، ہتھیاروں، بحری، فوجی یا فضائیہ کے قیام یا اسٹیشن، کان، مائن فیلڈ، فیکٹری، ڈاکیارڈ، کیمپ، بحری جہاز یا ہوائی جہاز یا بصورت دیگر پاکستان کے بحری، فوجی یا فضائیہ کے امور سے متعلق ہو یا پھر ریاست کے کسی خفیہ ضابطے سے متعلق ہو تو ایسی صورت میں [موت کے ساتھ، یا] قید کے ساتھ ایک مدت کیلئے جو 14؍ سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ (b) کسی دوسرے معاملے میں، قید کی مدت کے ساتھ جو 2؍ سال تک ہو سکتی ہے، یا جرمانہ، یا دونوں کے ساتھ۔
سابق وزیر اعظم کے خلاف سائفر کیس اس وقت سنگین ہو گیا جب ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے مجسٹریٹ اور ایف آئی اے کے سامنے بیان دیا کہ سابق وزیر اعظم نے اپنے ’’سیاسی فائدے‘‘ اور اپنی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کو روکنے کیلئے امریکی سائفر کا استعمال کیا تھا۔ اعظم خان نے اپنے اقبالیہ بیان میں کہا تھا کہ جب انہوں نے سابق وزیر اعظم کو سائفر فراہم کیا تو وہ ’’مسرور‘‘ نظر تھے اور سائفر میں لکھی زبان کو ’’امریکی غلطی‘‘ قرار دیا۔
اعظم خان کے مطابق سابق وزیر اعظم نے پھر کہا کہ اس کیبل کو ’’اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے خلاف بیانیہ بنانے‘‘ کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اعظم خان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کی جانب سے سیاسی اجتماعات میں امریکی سائفر کا استعمال کیا جاتا رہا، حالانکہ انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ اس اقدام سے گریز کریں۔ اعظم خان نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے انہیں یہ بھی بتایا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں عوام کی توجہ ’’غیر ملکی مداخلت‘‘ کی طرف مبذول کرنے کیلئے سائفر کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
نوٹ: یہ خبر آج 18 اگست 2023 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے۔