24 اگست ، 2023
توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کل تک متلوی کر دی گئی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن اپنےکسی افسر کو کمپلینٹ دائر کرنےکا مجاز قرار دے سکتا ہے، اس کیس میں سیکرٹری الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو کمپلینٹ دائر کرنے کا کہا۔
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ صدر مملکت نے 14اگست کو قیدیوں کی سزا میں 6 ماہ کی معافی کی، چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا کا دورانیہ پہلے بھی کم اور تین سال قید تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن، چیف الیکشن کمشنر اور چار ممبران پر مشتمل ہوتا ہے، ریکارڈ میں الیکشن کمیشن کے کمپلینٹ دائر کرنے کا کوئی اجازت نامہ نہیں ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اجازت نامہ ریکارڈ میں موجود ہے، جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا وہ اجازت سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کاکمپلینٹ دائر کرنےکا اجازت نامہ قانون کے مطابق نہیں؟، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا جی بالکل، وہ اجازت نامہ درست نہیں ہے۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے ہائیکورٹ کے آرڈر کو بھی نظر انداز کیا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت خامیاں ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہماری اپیل منظور کی اور ہائیکورٹ نے درخواست دوبارہ فیصلہ کرنے کیلئے ٹرائل کورٹ کو بھجوائی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کمپلینٹ ٹرائل کے لیے براہ راست سیشن جج کے پاس نہیں جا سکتی، قانون میں طریقہ کار دیاگیا ہے کہ کمپلینٹ پہلے مجسٹریٹ کے پاس جائے گی، سیشن کورٹ براہ راست کمپلینٹ سن ہی نہیں سکتی، ٹرائل کورٹ کا آرڈر غلطیوں کے باعث برقرار نہیں رہ سکتا۔
سردار لطیف کھوسہ نے استدعا کی کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطل کر دی جائے، سزا کالعدم قرار دینےکی اپیل پر دلائل کیلئے ہم دوبارہ عدالت کے سامنےآئیں گے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں ان تمام ایشوز پر فیصلہ دیا گیا؟ جس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا بالکل نہیں، جو فیصلہ انہوں نے دیا تھا وہ ہائیکورٹ کالعدم قرار دے چکی۔
کمرہ عدالت میں گنجائش سے زیادہ افراد ہونے کے باعث حبس اور گرمی کی وجہ سے عدالت میں لگے اے سی بھی کام کرنا چھوڑ گئے۔ اسلام آبادہائی کورٹ بار کے صدر نوید ملک پسینہ پونچھنےکے لیے ٹشوپیپر تلاش کرتے رہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے شکوہ کیا کہ آپ کو شاید تھوڑی بہت ہوا آ رہی ہو، ہمیں توبالکل نہیں آ رہی، جس پر چیف جسٹس نے کہا اے سی کے وینٹ کے سامنے ناکھڑےہوں تاکہ ہوا نا رکے۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ حتمی فیصلے میں کیا ٹرائل کورٹ نے وجوہات دیں؟ جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے وجوہات نہیں دیں، ٹرائل کورٹ کے جج نے آپ کے فیصلے کو نظر انداز کیا۔
جسٹس طارق جہانگیری نے پوچھا کہ ٹرائل کورٹ نے دفاع کے گواہوں کو کس بنیاد پر غیر متعلقہ کہا؟ جس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دے دیا، ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو جانچے بغیر انہیں اسی روز غیرمتعلقہ قرار دیا، ٹرائل کورٹ نے گواہوں کو غیرمتعلقہ قرار دینے کی وجہ لکھی ہی نہیں۔
سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کیا فوجداری تاریخ میں ایسا کبھی ہوا ہے؟ حق دفاع ختم کرنے کے ٹرائل کورٹ فیصلے کی درخواست پر نوٹس جاری ہو چکا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے شکوہ کرتے ہوئے کہا چیف جسٹس صاحب، معذرت کے ساتھ آپ نے بھی ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا نہیں، اگر ہائیکورٹ نے نہیں روکا پھر بھی جج کو حتمی فیصلہ نہیں دینا چاہیے تھا، ملزم کو اپنےدفاع میں گواہ پیش کرنے سے روکا ہی نہیں جا سکتا۔
ان کا کہنا تھا ایک شخص اپنا دفاع پیش کر رہاہے آپ کیسے اُسے روک سکتے ہیں، چار گواہ تو پیش کر رہے تھے کوئی 40 تو نہیں تھے، ٹرائل کورٹ کے فیصلے سے چیئرمین پی ٹی آئی کے آئینی حقوق متاثر ہوئے، گوشوارے جمع ہونے کے 120 دن کے اندر کمپلینٹ دائر کی جا سکتی ہے، یہ کمپلینٹ گوشوارے جمع ہونے کے 920 دن بعد دائر کی گئی، یہ تو نہیں ہو سکتا کہ میرے سر پر ہمیشہ تلوار لٹکی رہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا ٹرائل کورٹ نے ناصرف ملزم کے دفاع کا حق ختم کیا بلکہ خواجہ حارث کی بحث بھی نہیں سنی، خواجہ حارث نے بتایا ان کے منشی کا مسئلہ بنا ہوا تھا جس وجہ سے آنے میں تاخیر ہوئی، خواجہ حارث 12بجے ٹرائل کورٹ پہنچ گئے تھے مگر جج نےکہا اب آپ کی ضرورت نہیں، عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور آدھےگھنٹے بعد 30 صفحات کا فیصلہ جاری کر دیا، ساڑھے 12 بجے فیصلہ آیا اور 12:35 پر پولیس چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتارکر نے پہنچ گئی، چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا ان کےگھرکےگیٹ اور واش روم کا دروازہ تک توڑاگیا۔
چیرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے پوچھا امجد پرویز صاحب کیا آپ کو کچھ کہنا ہے؟ جس پر امجد پرویز نے کہا کھوسہ صاحب (لطیف کھوسہ) میرے نکاح کے بھی گواہ ہیں، امجد پرویز ایڈووکیٹ کی بات پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
وقفے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ حق دفاع سے متعلق چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ میں زیر سماعت ہے، حق دفاع کی درخواست پر نوٹس جاری کیے جانےکے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے۔
سپریم کورٹ اور سنگل بینچ میں زیر سماعت ہونے کی وجہ سے یہ بینچ اس معاملے پر کوئی آبزرویشن نہیں دے سکتا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا یہ بینچ تو سپریم کورٹ اور سنگل بینچ کے درمیان سینڈوچ ہو گیا، ان کا یہ کہنا ہے اگرچہ اسٹے نہیں تھا اس کے باوجود نوٹس تو اس عدالت نے کر رکھا تھا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا اکاؤنٹنٹ اپنی طرف سے تو کچھ نہیں لکھتا، کلائنٹ ہی بتاتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم اگرچہ لیگل کمیونٹی سے ہیں لیکن ٹیکس ریٹرن تو نہیں بھر سکتے۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا انہوں نے گوشواروں میں 4 بکریاں ظاہر کیں لیکن باقی متعلقہ چیزیں ظاہر نہیں کیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا ان کے تین سوالات ہیں ایک مجسٹریٹ والا، ایک دورانیے والا اور ایک اتھارٹی والا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ان کا سوال یہ بھی ہے ان کو آخری دن سنا نہیں گیا، ان کا حق دفاع بھی ختم ہوا، جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ یہ عدالت اس وقت سزا معطلی کی درخواست پر سماعت کر رہی ہے، سزا معطلی کی درخواست پر عدالت میرٹس پر گہرائی میں نہیں جائے گی، یہ سوالات تو آئیں گے کہ ملزم کو حقِ دفاع ہی نہیں دیا گیا۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کے گواہوں کو غیر متعلقہ قرار دیا، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ گوشوارے تو اپنے کنسلٹنٹ کی مشاورت سے جمع کرائے جاتے ہیں نا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ تو کلائنٹ کو بتانا ہوتا ہے کہ اُس کے اثاثے کیا تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کی فیملی کے پاس 3 سال تک کوئی جیولری یا موٹر سائیکل تک نہیں تھی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ مجھے تو کوئی اپنے ریٹرنز فائل کرنے کا کہے تو میں خود نہیں کر سکتا، جس پر امجد پرویز نے کہا کہ یہ ٹیکس ریٹرن کا کیس ہی نہیں غلط ڈیکلیئریشن کا کیس ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے اپیل میں ریاست کو فریق نہ بنانےکا اعتراض اٹھایا جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ شکایت کنندہ الیکشن کمیشن ہے اور درخواست گزار نے اسےفریق بنایا ہے، ریاست کو اپیل میں فریق بنانےکی ضرورت کیا ہے؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ سزا سنائے جانےکے بعد ملزم کا اسٹیٹس مجرم میں تبدیل ہو گیا، سزا یافتہ اب ریاست کی قید میں ہے، میں یہ نہیں کہہ رہاکہ اس گراؤنڈ پر اپیل مسترد کر دی جائے، میرا مؤقف ہےکہ کم ازکم اسٹیٹ کو نوٹس کرکے سنا جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ ریاست کو نوٹس بھی کر دیں تو کیا ہو گا؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ یہ مینڈیٹ آف لا ہےکہ اسٹیٹ کو بھی نوٹس ہونا چاہیے۔
جسٹس طارق جہانگیری نے کہا کہ جن کیسز کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اُس میں ایف آئی آر درج ہوئی تھی، اس کیس میں کوئی ایف آئی آر موجود نہیں ہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ قانون کی متعلقہ دونوں شقیں کہتی ہیں کہ ریاست کو نوٹس جاری کیا جانا ہے، ریاست کے پاس فیصلے کے دفاع کا حق موجود ہے، ریاست نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ فیصلے کا دفاع کرے گی یا نہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کو لگتا ہے کہ ریاست آ کر کہے گی کہ سزا غلط دی گئی؟ یہ مختصر سزا ہے اور یہ بغیر نوٹس بھی معطل ہو جاتی ہے، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا ایسا کوئی فیصلہ موجود نہیں ہے کہ بغیر نوٹس سزا معطل ہوئی ہو، تین سال قید کی سزا کو کم دورانیے کی سزا کہہ کر سزا معطلی کا کہا جا رہا ہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ کیپٹن صفدر کو صرف ایک سال قید کی سزا ہوئی تھی، ہائی کورٹ سے سزا معطل ہونے میں تین ماہ لگے تھے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سزا معطلی سے متعلق درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی، کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے ہو گی۔
یاد رہے کہ عدالت نے گزشتہ روز اٹک جیل حکام کو چیئرمین پی ٹی آئی سے وکلا بابر اعوان اور لطیف کھوسہ کو ملاقات کی اجازت دی تھی۔
دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ پر عدم اعتماد کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے اور اپنےکیسز، ٹرائل اور انکوائریاں اسلام آباد ہائیکورٹ سے لاہور یا پشاور ہائیکورٹ منتقل کرنے کی درخواست کی ہے۔