03 ستمبر ، 2023
ڈالر کی طرح بجلی کے ریٹ بھی بے لگام ہوگیا اور گھریلو صارف کے لیے بجلی کے ایک یونٹ کی انتہائی قیمت 57 روپے 80 پیسے تک پہنچ گئی۔
بجلی مہنگی ہی نہیں، مہنگی ترین ہو چکی اور یہ سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دے رہا۔ لوگ پریشان ہیں کہ بجلی کے بل دیں یا کھانا پینا اور دیگر ضروریات زندگی پوری کریں۔ اس وقت بجلی کے ایک یونٹ کی اوسط قیمت 42 روپے ہے۔
گھریلو صارف کوایک یونٹ زیادہ سےزیادہ 57 روپے 80 پیسے اور کمرشل صارف کو 63 روپے 98 پیسے میں بھی پڑتا ہے۔ بجلی مہنگی ہونے کی ایک بڑی وجہ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے بھی ہیں، 30 جون 2023 تک ایک سال میں آئی پی پیز کو کیپیسٹی پے منٹس 1300ارب روپے رہیں۔
ایسی بجلی کی رقم جو صارف نے استعمال ہی نہیں کی مگر اس کابالآخر بوجھ بھی صارف پر پڑا۔
رواں مالی سال جون 2024 تک کیپیسٹی پیمنٹس 2 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرنے کا تخمینہ ہے۔ بجلی چوری اور لائن لاسز بھی ایک بڑا مسئلہ ہے یعنی کرے کوئی اور بھرے کوئی ۔ 520 ارب روپے سالانہ، چوری اور اور لائن لاسز 17فیصد سے زائد ہیں اور اس مد میں صرف ایک فیصد 30 ارب روپے بنتا ہے۔
رواں مالی سال تو بجلی چوری اور لائن لاسز تقریبا 700 ارب روپے تک پہنچنے کا خدشہ ہے جبکہ یہ بوجھ بھی انہیں صارفین کو اٹھانا پڑتا ہے جو بجلی کے بل ادا کر رہے ہیں۔
نادہندگان بھی ایک بڑی وجہ ہیں، نادہندگان کی طرف بقایا جات جون 2022 تک 1498 ارب روپے تھے اور اب تک 2000 ارب روپے سے زائد ہونے کا تخمینہ ہے۔
صرف مالی سال 2021-22 میں 10 بجلی تقسیم کار کمپنیوں نے صارفین کو 2423 ارب 29 کروڑ روپے کے بل بھیجے جس کے بدلے 2193 ارب 37 کروڑ روپے وصول ہوئے، باقی 230ارب روپے ڈیفالٹرز ہضم کرگئے۔
گردشی قرضہ جون 2023 تک 2310 ارب روپے تھا ، رواں مالی سال اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
ڈالر مہنگا ہونے سے بھی بجلی مہنگی ہو رہی ہے۔