پاکستان کو اس سیاسی و معاشی غیر یقینی تک پہنچانے کے لیے جہاں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سلیکٹڈ سیاستدانوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے تو وہیں عدلیہ کا کردار بھی اس حوالے سے بہت ہی زیادہ منفی رہا ہے۔
16 ستمبر ، 2023
آج پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال کی مدت ملازمت کا آخری دن ہے جس کے بعد بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پاکستان کے نئے چیف جسٹس بن جائیں گے لیکن کیا وہ عدالتی تقسیم کو ختم کرکے، سپریم کورٹ کا وقار بحال کر پائیں گے؟کیونکہ اس وقت پاکستان کی سپریم کورٹ پر، نہ اس کے ججز کو ، نہ عوام کو اور نہ ہی سیاستدانوں کو کوئی اعتماد ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو اس سیاسی و معاشی غیر یقینی تک پہنچانے کے لیے جہاں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سلیکٹڈ سیاستدانوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے تو وہیں عدلیہ کا کردار بھی اس حوالے سے بہت ہی زیادہ منفی رہا ہے۔
سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں شروع ہونے والا جوڈیشل ایکٹیوزم اب اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے اور گزشتہ چار چیف جسٹسز کے دور میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے اس حد تک سیاسی مداخلت کی ہے کہ بقول سپریم کورٹ کے جج، جسٹس اطہر من اللہ کے کہ ’ عوام کا عدالت پر اعتماد ختم ہوگا جب لوگ ججز کو عدالتی لبادے میں سیاستدان کے طور پر دیکھ رہے ہوں گے ۔ اور یہ بات سچ بھی ہے کہ موجودہ دور میں جج اور سیاستدان کا فرق تقریباََ ختم ہوچکا ہے اور اس فرق کو ختم کرنے میں جہاں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، سابق چیف جسٹس گلزار احمد اور سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنا کردار ادا کیا ہے تو وہیں، اس کی ایک بڑی ذمہ داری جانے والے چیف جسٹس ، جسٹس عمر عطاء بندیال پر عائد ہوتی ہے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، تاریخ کے وہ واحد چیف جسٹس ہیں جن پر اُن کے اپنے ساتھی ججز نے چارج شیٹ کی ہے
آج چیف جسٹس عمر عطاء بندیال جس حالت میں سپریم کورٹ کو چھوڑ کر جارہے ہیں وہ جمہوری حکومتوں کے دوران تاریخ کی سب سے کمزور اور متنازع سپریم کورٹ ہے۔ ایک ایسی سپریم کورٹ ہے جس کے چیف جسٹس کی ساس کی جب آڈیو لیک ہوئی تو وہ چیف جسٹس خود آڈیو کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کیخلاف کیس کی سماعت کرتے رہے۔ مفادات کے ٹکراؤ کے باوجود، چیف جسٹس نے آڈیو لیک کمیشن کی کارروائی کو معطل کیا اور خود اپنے اوپر اعتراضات کا تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں انہوں نے اپنے دفاع کے لیے قرآنی آیات کا استعمال کیا۔
مگر بات یہاں ختم نہیں ہوجاتی، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، تاریخ کے وہ واحد چیف جسٹس ہیں جن پر اُن کے اپنے ساتھی ججز نے چارج شیٹ کی ہے اور ان پر من پسند بینچز تشکیل دینے اور ون مین شو کے ذریعے عدالت چلانے کا الزام لگایا ہے۔ یہ الزام بھی لگایا ہے کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے دور میں آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کی کوشش کی ہے اور پارلیمانی معاملات میں مداخلت کی ہے۔
صرف یہی نہیں، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال پر اُن کے بعد سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج، یعنی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود کو سائیڈ لائن کرنے کا الزام بھی لگ چکا ہے جس کا اعتراف دونوں ججز اپنے اپنے عدالتی نوٹس میں کرچکے ہیں۔
اس لیے جسٹس عمر عطاء بندیال کے منتازع دور کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔
اپنی مدت ملازمت ختم ہونے سے ایک دن پہلے چیف جسٹس ، جسٹس عمر عطاء بندیال نے چیئر مین تحریک انصاف عمران کی درخواست پر فیصلہ سنادیا اور قومی احتساب بیورو کو ریگیولیٹ کرنے کے لیےگزشتہ حکومت کی طرف سے نیب قانون میں کی گئی 90 فیصد ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا، نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کا یہ فیصلہ 2 ایک کے تناسب سے جاری کیا گیا ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن نے اس حوالے سے اکثریتی فیصلہ لکھا اور جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے سے اختلاف کیا۔
سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ جسٹس عمر عطاء بندیال کا ایک دن پہلے یہ فیصلہ کرجانا ان دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک خاموش پیغام تھا جنہوں نے اپنی حکومت کے دوران جسٹس عمر عطاء بندیال پر قانونی اور سیاسی طور پر دباؤ بڑھائے رکھا۔
چیف جسٹس عمرعطاء بندیال کے اس فیصلے سے پاکستان تحریک انصاف کو جہاں بڑا ریلیف ملا تو وہیں اس کا سب سے بڑا نقصان سابق حکمراں اتحاد کی سیاسی جماعتوں کو ہوسکتا ہے جس میں سر فہرست پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ہیں کیونکہ نئی نیب ترامیم کے بعد ان دونوں جماعتوں سے وابستہ سیاستدانوں کے جو کیسز ختم ہوگئے تھے اب وہ دوبارہ بحال ہوسکتے ہیں جب کہ سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ جسٹس عمر عطاء بندیال کا ایک دن پہلے یہ فیصلہ کرجانا ان دونوں سیاسی جماعتوں کو ایک خاموش پیغام تھا جنہوں نے اپنی حکومت کے دوران جسٹس عمر عطاء بندیال پر قانونی اور سیاسی طور پر دباؤ بڑھائے رکھا۔
اہم بات یہ ہے کہ جسٹس عمر عطاء بندیال کا اپنی مدت ملازمت سے ایک دن پہلے کا یہ ماسٹر اسٹروک قانونی طور پر کتنا درست ثابت ہوگا یہ تو تفصیلی فیصلے کی وجوہات سامنے آنے کے بعد پتا چلے گا کیونکہ اس فیصلے کیخلاف اگر نظر ثانی کی درخواست کی جائیگی تو وہ نئے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے فکس ہوگی اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ وہ جج ہیں جنہوں نے سب سے سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطاء بندیال کی جانبداری پر سوالات اٹھائے تھے اور پھر ان معاملات اتنی شدت اختیار کرلی تھی کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے پورے دور میں سپریم کورٹ واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم نظر آئی۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کا باقاعدہ پہلا تنازع اُس وقت شروع ہوا جب اُن کی سربراہی میں ایک بینچ نے اسٹیبلشمنٹ اور سابق وزیراعظم عمران خان کی ایماء پر بھیجے گئے صدارتی ریفرنس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف تحقیقات کی بات کی اور صدارتی ریفرنس میں لگائے گئے الزامات کا معاملہ ایف بی آر کو بھیج دیا اور پھر اُن کا آخری تنازع ملٹری کورٹس کیخلاف بینچ کی تشکیل دینے سے متعلق تھا جس میں جسٹس فائز عیسیٰ سمیت سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز نے بینچ کی تشکیل کو ہی غیر قانونی قرار دیدیاتھا اور یہ وہ تنازع تھا جس کے ذریعے سپریم کورٹ کے اندر موجود اختلافات نے شدت پکڑی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی تھی، حکومت اور سپریم کورٹ آمنے سامنے آگئے تھے اور ملک میں چیف جسٹس کے بے پناہ اختیارات کو محدود کرنے کی بحث چھڑ گئی تھی۔
مگر سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ بنیادی طور پر اس تنازع نے ملٹری کورٹس کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران جنم نہیں لیا بلکہ یہ معاملہ آج سے تین سال پہلے ہی شروع ہوگیا تھا۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے قائم مقام چیف جسٹس بنتے ہی اگلے دن جسٹس فائز عیسیٰ کا صحافیوں کی درخواست پر 20 اگست 2021 کو لیا گیا از خود نوٹس معطل کردیا
20 اگست 2021 کو ، جسٹس عمر عطاء بندیال نے قائم مقام چیف جسٹس کا حلف لیا تھا کیونکہ اُس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد بیرون ملک تھے اور جسٹس عمر عطاء بندیال کو حلف دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ تھے اور یہ وہ وقت تھا جب سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید پر عدالتی کارروائیوں پر اثر انداز ہونے کا الزام لگتا تھا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پر تھے۔
حیران کن طور پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے قائم مقام چیف جسٹس بنتے ہی اگلے دن یعنی 21 اگست 2021 کو جسٹس فائز عیسیٰ کا صحافیوں کی درخواست پر 20 اگست 2021 کو لیا گیا از خود نوٹس معطل کردیا اور اِس پورے معاملے پر اپنی ہی سربراہی میں ایک لارجر بینچ بنادیا اور اس فیصلے سے ہی چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے مستقبل کے سفر کا تعین ہوگیا تھا۔
اس لارجر بینچ میں خوداُس وقت کے قائم مقام چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے جس کے بعد اس بینچ نے جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف سے لیے گئے سوموٹو کوکو غلط قرار دیا اور یہ تمام اختیارات چیف جسٹس تک محدود کردیے جس کا سب سے بڑا فائدہ کسی اور کو نہیں بلکہ خود قائم مقام چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال کو ہونے والا تھا۔
یہاں سے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے درمیان تنازع نے شدت اختیار کرلی۔ پھر رواں سال 29 مارچ کو جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس قاضی امین الدین نے سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیارات سے متعلق یہ فیصلہ جاری کیا تھا کہ’ آرٹیکل 184 تین کے تحت چلنے والے تمام کیسزکی سماعت کو اُس وقت تک ملتوی کردیا جائے جب تک پہلے سپریم کورٹرولز نہیں بنا لیتی۔
پھراچانک رواں سال اپریل میں حکومت سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا قانون لے آئی اور اس قانون میں چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات اور بینچز کی تشکیل کے اختیارات کو چیف جسٹس کے ساتھ ساتھ دو سینئر ججز کے درمیان تقسیم کردیا گیا کہ آئندہ اکیلے چیف جسٹس نہیں بلکہ اُن کے ساتھ سپریم کورٹ کے باقی دو سینئر ججز کی کمیٹی یہ فیصلہ کرے گی مگر صدر کی منظوری سے پہلے ہی چیف جسٹس نے اپنی ہی سربراہی میں اس حوالے سے ایک 8 رُکنی بینچ بنادیا اور اُس بینچ نے اس ایکٹ کو تاحکم ثانی معطل کردیا تھا۔
چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات کو تقسیم کرنے کے قانون سے متعلق کیس اب تک زیر التواء ہے مگر قانون معطل ہے
دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس کے سوموٹو اختیارات کو تقسیم کرنے کے قانون سے متعلق کیس اب تک زیر التواء ہے مگر قانون معطل ہے۔ اس معاملے کے کچھ عرصے بعد سپریم کورٹ نےسویلینز کے ملٹری ٹرائل کے خلاف عمران خان سمیت دیگر کی درخواستوں پرسماعت کرنے کے لیے 9 رُکنی بینچ بنایا تھا جس میں حیران کن طور پر جسٹس سردار طارق مسعود سمیت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے جن کو پہلے اہم اور خاص طور پر سیاسی نوعیت کے بہنچ میں شامل نہیں کیا جارہا تھا ۔
مگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردارطارق مسعود نے اس بینچ پر اعتراض اٹھایا اور کہا کہ اس حوالےسے ہم سے مشاور ت نہیں کی گئی اور سب سے پہلے سوموٹو اور بینچز کی تشکیل کے اختیارات سے متعلق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہونا چاہیے جس کے بعد چیف جسٹس نے اس معاملے پر ایک نیا 7 رُکنی بینچ بنادیاجس میں سردار طارق مسعود اور جسٹس فائزعیسیٰ شامل نہیں تھے۔
مگر اُس بینچ میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منصور علی شاہ بھی شامل تھے لیکن حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ پر یہ کہہ کر اعتراض کردیا کہ وہ ایک درخواست گزار جسٹس جواد ایس خواجہ کے رشتہ دار ہیں ۔اس اعتراض کے بعد جسٹس منصور علی شاہ بینچ سے رضاکارانہ طور پر الگ ہوگئے اور انہوں نے اپنے نوٹ میں چیف جسٹس پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے لکھا تھا کہ ’میں اس بینچ میں تحفظات کے ساتھ بیٹھا، انتہائی احترام کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ماضی قریب میں بینچز کی تشکیل کے لیے متواتر ایک مخصوص پیٹرن رہا ہے اورفُل کورٹ بنانے کےلیے ہچکچاہٹ کامظاہرہ کیاگیا ہے بلکہ چند معزز ججز کے اسپیشل بینچز بنائے گئے ہیں اوریہ مفادِ عامہ کے اُن اہم ترین کیسز میں کیاگیا، فل کورٹ کی عدم تشکیل سے اس عدالت کی اتھارٹی اور فیصلوں کی قانونی حیثیت بُری طرح متاثرہوئی ہے، میری رائے میں جب تک سپریم کورٹ ، پریکٹس اینڈ پروسیجز ایکٹ کے حوالے سےکوئی فیصلہ نہیں دے دیتی ہے، آرٹیکل 184 تین کے تحت دائر ہونے والے معاملات سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ سنے‘۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال ، چیف جسٹس بننے سے پہلے جن مخصوص بینچز کا حصہ تھے جو متنازع سیاسی فیصلے دیتے رہے
مگر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے اپنے ساتھی ججز کے خدشات کو نظر انداز کردیا اور مخصوص بینچ بنانے کی روایت آگے بڑھائی۔ ملٹری کورٹ کے کیس میں جسٹس یحییٰ آفریدی جو ابھی تک اس بینچ کا حصہ ہیں انہوں نے اس کیس کی ابتدائی سماعت کے بعد اپنے نوٹ میں لکھا تھاکہ ’میرے خیال میں موجودہ درخواستوں کی سماعت کے لیے فُل کورٹ تشکیل دیا جانا اس حوالے سے پہلامناسب قدم ہوسکتاہے، اس طرح کاکوئی اقدام اٹھائے بغیر موجودہ بینچ کوئی فیصلہ جاری کرے گا تو اُس فیصلے کو وہ اہمیت نہیں ملے گی جس کاوہ حق رکھتاہے، اس لیے میں چیف جسٹس سے درخواست کرتاہوں کہ موجودہ بینچ کی دوبارہ تشکیل پرغورکریں اوریہ درخواستیں فُل کورٹ کوبھجوادیں‘۔
لیکن جسٹس یحیٰ آفریدی کی درخواست کو بھی چیف جسٹس نے نظر انداز کردیا اور کیس کی سماعت جاری رکھی، سب سے اہم بات یہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال ، چیف جسٹس بننے سے پہلے جن مخصوص بینچز کا حصہ تھے جو متنازع سیاسی فیصلے دیتے رہے، چیف جسٹس بننے کے بعد بھی جسٹس عمرعطاء بندیال نے اہم سیاسی کیسز کو اُن مخصوص بینچز کے سامنے ہی رکھا اور ان بینچز نے ایسے متنازع فیصلے دیے جن کا بعد میں نہ چیف جسٹس اور نہ ہی اُن کے ہم خیال ججز دفاع کرسکے ہیں۔
اس حوالے سے کچھ حقائق کا جائزہ لیتے ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سیاست کا راستہ مکمل طور پر روکنے کے لیے سپریم کورٹ نے اپریل 2018 کو ایک اور متنازع فیصلہ دیا اور وہ فیصلہ تھا کہ جو شخص آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل ہوا ہو اُس کی نااہلی تاحیات رہے گی جس بینچ نے یہ متنازع فیصلہ دیا اس کے اراکین میں جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطاء بندیال ، جسٹس اعجازلاحسن، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے ۔
اسی طرح جولائی 2018 کو سپریم کورٹ نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کےلیے فنڈ قائم کرنے سے متعلق ایک متنازع فیصلہ دیا اور جس بینچ نے یہ متنازع فیصلہ دیا اس بینچ کے اراکین میں، جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے ۔ 2017 میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عمران خان کو صادق و امین قرار دیا اور فیصلہ دینے والے جو ججز تھے ۔اُس میں جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس فیصل عرب شامل تھے۔
اس کے علاوہ ، دسمبر 2018 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری کی نااہلی کے حوالے سےدرخواست دائر ہوئی مگر سپریم کورٹ نے اس درخواست کو مسترد کردیا اور اس بینچ کے اراکین میں،جسٹس ثاقب نثار، جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس اعجازلاحسن شامل تھے ۔
اگست 2021 میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ صرف چیف جسٹس ہی سپریم کورٹ کے سو موٹو دائرہ کار کا استعمال کرسکتے ہیں جس بینچ نے یہ متنازع فیصلہ دیا اس میں جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازلاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس قاضی امین احمد اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔
مارچ 2021 میں ایک صدارتی ریفرنس دائر ہوا اور سپریم کورٹ سے سینیٹ الیکشن سے متعلق رائے مانگی گئی کہ کیا آئین کے مطابق ان انتخابات کو سیکریٹ بیلٹ کے ذریعے ہونا چاہیے یا اوپن بیلٹ کے ذریعے، سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ سینیٹ انتخابات سیکریٹ بیلٹ کے ذریعے ہی ہونے چاہئیں مگر فیصلہ دینے والے بینچ میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطاء بندیال ، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے جب کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھااور صدارتی ریفرنس کو واپس کردیا تھا۔
اسی طرح اپریل 2022 میں سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر قومی اسمبلی کی تحلیل کو غیر آئینی قرار دیا اور فیصلہ دینے والے بینچ میں جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس میاں خیل اور جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے۔
پھر مئی 2022 میں سپریم کورٹ نے پراسیکیوشن برانچ میں حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس لے لیا اور یہ از خود نوٹس چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ایک جج کی سفارش پر لیا اور اس حوالے سے جو بینچ تشکیل دیا گیا اس میں جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے ۔
اسی طرح مئی 2022 میں ایک صدارتی ریفرنس دائر ہوا جس میں پارٹی لائن کیخلاف ووٹ ڈالنے پر ووٹ مسترد ہوں گے یا انہیں گنا جائے گااس حوالے سے رائے مانگی گئی، سپریم کورٹ نےاس حوالے سے ایک متنازع فیصلہ دیا اورقرار دیا کہ پارٹی لائنز کیخلاف ووٹ ڈالنے پر ووٹ مسترد ہوں گے، جس بینچ نے یہ فیصلہ دیا اُس میں جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے جب کہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال مندوخیل نے اس حوالے سے اختلافی نوٹ لکھے اور اس فیصلے کو آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا۔
مئی 2022 میں پی ٹی آئی کو ڈی چوک پراحتجاج سے متعلق سپریم کورٹ کے احکامات کی پیروی نا کرنے پرجب چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف توہین عدالت کا مقدمہ دائر ہوا تو اس حوالے سے جو بینچ بنا اس میں جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس یحییٰ آفریدی شامل تھے، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اس کیس میں تو اپنا مائنڈ واضح کردیا کہ عمران خان پر توہین عدالت لگ سکتی ہے لیکن بینچ کے باقی اراکین اس معاملے کو دبا کر بیٹھ گئے اور آج تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوسکا ہے۔
جولائی 2022 کو سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا، اس بینچ میں بھی جسٹس عمر عطا بندیال شامل تھے
جولائی 2022 کو سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا اور جو ووٹ پارٹی لائن کیخلاف پرویز الٰہی کے حق میں دیے گئے تھے انہیں تسلیم کرکے پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ قرار دیا گیا، فیصلہ دینے والے بینچ میں جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
مارچ 2023 میں سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے از خود نوٹس لیا اور جو بینچ بنایا گیا اس میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر اکبر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔
پھر اپریل 2023 میں الیکشن کمیشن کی طرف سے اکتوبر 2023 تک الیکشن کی تاریخ رکھنے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا اور خود پنجاب میں 14 مئی کو الیکشن کی تاریخ رکھی جس پر حکومت نے عمل در آمد نہیں کیا اور اس بینچ میں، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اورجسٹس منیب اختر شامل تھے۔
پھر اپریل 2023 میں سپریم کورٹ نے حکومت کی طرف سے بنائے گئے قانون سپریم کورٹ اینڈ پروسیجر ایکٹ کو معطل کردیا اور جس بینچ نے یہ فیصلہ دیا اس میں، چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازلاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر اکبر نقوی، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے ۔ اپریل 2023 میں ہی سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں کو بات چیت کے ذریعے ایک متفقہ الیکشن کی تاریخ طے کرنے کا فیصلہ جاری کیا اور فیصلہ جاری کرنے والے بینچ میں ایک بار پھر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔
مئی 2023 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بننے والے آڈیو لیکس کمیشن کے نوٹیفکیشن کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا
مئی 2023 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بننے والے آڈیو لیکس کمیشن کے نوٹیفکیشن کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا اور جس بینچ نے یہ فیصلہ دیا اس میں بھی چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازلاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس حسن رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔
پھر جون 2023 میں سپریم کورٹ نے حکومتی قانون ججمنٹ اینڈ ریویو آرڈرکو غیر قانونی قرار دینے سے متعلق اپنا فیصلہ محفوظ کیا اور بعد میں جاکر جس بینچ نے اسے کالعدم قرار دیا اُس میں بھی چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل تھے، یعنی سپریم کورٹ کے 17 ججز میں سے بیشتر کیسز کچھ مخصوص ججز کو ہی بینچز میں دیکھا گیا جس میں سر فہرست ، جسٹس عمر عطاء بندیال ، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کا نام شامل ہے ۔
جب کہ حال ہی دی نیوز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ 7 سال میں 4 چیف جسٹسز کے ادوار میں 1957 رپورٹڈ کیسز کا جائزے سے یہ پتا چلا ہے کہ 1957 کیسز میں سے 134 اہم سیاسی کیسز میں جسٹس اعجازالاحسن سب سے زیادہ یعنی 63 کیسز کا حصہ رہے، جسٹس عمر عطاء بندیال 52 کیسز کا حصہ رہے،جسٹس منیب اختر 22 کیسز کا اور سپریم کورٹ کے سب سے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 11 کیسز کا حصہ رہے۔
7 سالوں میں سپریم کورٹ کے ججز میں سے جو سب سے زیادہ اہم سیاسی کیسز کا فیصلہ کرتے آرہے ہیں اُن میں جسٹس عمر عطاء بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر سب سے آگے ہیں
اور ایک ہزار 823 غیر اہم سیاسی کیسز میں جسٹس اعجازالاحسن سب سے زیادہ 372 کیسز کا حصہ رہے، جسٹس عمر عطاء بندیال دوسرے نمبر پر یعنی 315 کیسز کا حصہ رہے، جسٹس منصور علی شاہ 302، جسٹس سردار طارق مسعود 241 کیسز اور جسٹس فائز عیسیٰ 199 کیسز کا حصہ رہے۔
یعنی گزشتہ 7 سالوں میں سپریم کورٹ کے ججز میں سے جو سب سے زیادہ اہم سیاسی کیسز کا فیصلہ کرتے آرہے ہیں اُن میں جسٹس عمر عطاء بندیال ،جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر سب سے آگے ہیں جب کہ سینئر ترین ججز اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں۔
ان ہم خیال بینچز کی طرف سے ایسے فیصلے دیے گئے جن کا وہ آگے جاکر خود بھی دفاع نہیں کرسکے ہیں۔ مثال کے طور پر، اکتوبر 2022 میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق تحریک انصاف کے رہنما فیصل واؤڈا کی تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست پر سماعت کی اور انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’تاحیات نااہلی کا آرٹیکل 62 ون ایف ڈریکونین قانون ہے،موجودہ کیس کو محتاط ہوکر سنیں گے‘۔
اب اہم بات یہ ہے کہ چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کو ڈریکونین یعنی ظالمانہ قرار دیا مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کسی بھی عوامی عہدیدار تاحیات نااہلی کا فیصلہ خود جسٹس عمرعطاء بندیال نے تحریر کیا تھا جسے بعد میں انہوں نے اُس وقت ظالمانہ قرار دیا جب یہ شق تحریک انصاف کے رہنما پر لاگو کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ جب سابق وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا ماحول بن رہا تھا اور ان کے اراکین منحرف ہورہے تھے تو صدر عارف علوی نے انحراف سے متعلق آرٹیکل 63 کی تشریح کرنے کے لیے ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں بھیجا۔
مئی 2022 کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پر 2۔3 کے تناسب سے آرٹیکل 63 پر رائے دی اور قرار دیا کہ پارٹی کے منحرف اراکین کے ووٹ کو شمار نہیں کیا جائے گا لیکن خود چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جنہوں نے منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا اُن کے 24 مارچ 2022کو، صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس سامنے آئے تھے کہ ’ووٹ ڈال کر شمار نہ کیا جانا توہین آمیز ہے، یہ توہین آمیز ہےکہ ایک رکن ووٹ کاسٹ کرے اور آپ کہیں کہ یہ کاسٹ نہیں ہوگا، ووٹ تو ہر صورت ہوگا، ووٹ کاؤنٹ ہونے کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس کے ساتھ کیا کرنا ہے‘۔
یعنی چیف جسٹس عمر عطاء بندیال اور اُن کے ہم خیال ججز نے وقت اور بدلتے حالات کے ساتھ نئے نئے قانونی جواز فراہم کیے اور نت نئے فیصلے دیے جس نے نہ صرف سپریم کورٹ کی ساکھ کو متاثر کیا بلکہ ملک کی سیاست پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کیے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کے دور میں ایک ایسے کیس کا بھی فیصلہ ہوا جو باقاعدہ عدالتی مداخلت کی ایک بڑی مثال بن گیا اور تاریخ میں پہلی بار ایسا بھی ہوا کہ سپریم کورٹ کے 4 ججز ایک طر ف ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ اس کیس میں اکثریتی فیصلہ ہمارا ہے اور چیف جسٹس کی سربراہی میں تین ججز ایک طرف ہوگئے، انہوں نے کہا کہ اکثریتی فیصلہ ہمارا ہے اور قانون کے مذاق کا عالم تو یہ ہے کہ آج تک یہ ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ اُس کیس میں اکثریتی فیصلہ آخر ہے کس کا ،مگر یہ وہ کیس تھا جس میں چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نہ صرف اپنی عدالت میں اپنی رٹ کھو بیٹھے بلکہ حکومت نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے سے ہی انکار کردیا۔
رواں سال 16 فروری کو جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہرعلی نقوی نے معطل سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کاکیس سنتے ہوئے اچانک پنجاب میں ممکنہ طور پر وقت پر انتخابات نہ ہونے پرتشویش کا اظہار کیا اور معاملہ ازخود نوٹس کے لیے چیف جسٹس کو بھیج دیا تھا، یعنی سماعت کسی اور کیس کی ہورہی تھی اور کیس کوئی اور اٹھا دیا اور پھر 22 فروری کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی کےنوٹ پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی بینچ تشکیل دے دیا جس میں خود چیف جسٹس، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہراور جسٹس اطہر من اللہ شامل تھے۔
24 فروری کو جب کیس کی سماعت ہوئی تو ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام جیسی سیاسی جماعتوں نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پرتحفظات کا اظہار کیا اور اُن کی بینچ سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ یوں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر اکبر نقوی اس بینچ سے الگ ہوگئے تھے۔
بعد میں جسٹس یحییٰ آفریدی نے بھی اپنے نوٹس میں ان درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے دیا تھا پھر جسٹس عمر عطاء بندیال نے اس معاملے پر ایک 5 رُکنی بینچ تشکیل دے دیا تھا اور اُس 5 رُکنی بینچ میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ شامل نہیں تھے۔ پھر اس 5 رُکنی بینچ میں سے تین اراکین نے یعنی جسٹس عمر عطاء بندیال ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہرنے،14 مئی 2023 کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دے دیا مگر بینچ کے باقی دو رُکن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور درخواستوں کو مسترد کردیا۔
اور جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹس اپنے فیصلے کے ساتھ ملاکر یہ قرار دیا کہ الیکشن سے متعلق درخواستیں مسترد کرنے کا اکثریتی فیصلہ 4 تین کے تناسب سے اُن کا ہے اور یہی سب پر بائنڈنگ ہے جب کہ جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جمال مندوخیل کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’مجھے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی وجوہات پڑھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا اور میں اُن کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں،خاص طور پر درخواستوں اور سوموموٹو کے دائرہ کار کو لاگو کرنے کے 3۔4 تین کے حتمی نتیجے سے متعلق اتفاق کرتا ہوں کیونکہ27 فروری 2023 کو جو Ante-room میں اجلاس ہوا تھا،اس کی انڈراسٹینڈنگ یہی تھی اور میں یہ بھی نوٹ کرتا ہوں کہ میں نے خودکو بینچ سے علیحدہ نہیں کیا اور نہ ہی میرے پاس خود کو بینچ سے علیحدہ کرنے کی کوئی وجوہات موجود تھیں‘۔
یعنی چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین ججز کہتے رہے کہ اکثریتی فیصلہ اُن کا ہے جب کہ دوسری طرف 4 ججز کہتے رہے کہ اکثریتی فیصلہ اُن کا ہے اور اس کیس میں ججز کو بتائے بغیر انہیں بینچ سے نکالا گیا۔
پھر اس تنازع نے سپریم کورٹ کی رٹ کو مزید نقصان پہنچا یا، اس قدر نقصان پہنچایا کہ سیاسی رہنما اس کا فائدہ اٹھا کر کھل کر کہتے رہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو نہیں مانیں گے۔
اب دیکھنا ہوگا کہ نئے بننے والے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ کی کھوئی ہوئی رٹ کو بحال کرکے عوام کا اعتماد حاصل کرپاتے ہیں یا نہیں۔