Time 20 ستمبر ، 2023
کاروبار

حالیہ کارروائی میں ڈالر اسمگلرز، بلیک مارکیٹنگ اور بینکوں کا گٹھ جوڑ سامنے آیا ہے: ملک بوستان

ڈالرزکی بڑی تعداد مختلف بینکوں کے لاکرز میں رکھی گئی تھی اور بینکوں کا عملہ بلیک مارکیٹنگ میں ملوث افراد کے ساتھ مل کر یہ ڈالرز حوالہ اور ہُنڈی میں استعمال کرتے تھے: چیئرمین ای سی اے پی/ فائل فوٹو
ڈالرزکی بڑی تعداد مختلف بینکوں کے لاکرز میں رکھی گئی تھی اور بینکوں کا عملہ بلیک مارکیٹنگ میں ملوث افراد کے ساتھ مل کر یہ ڈالرز حوالہ اور ہُنڈی میں استعمال کرتے تھے: چیئرمین ای سی اے پی/ فائل فوٹو

اسلام آباد: پاکستان میں ایکسچینج کمپنیوں کی ایسوسی ایشن (ای سی اے پی) کے چیئرمین ملک بوستان نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت کی جانب سے ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں، بلیک مارکیٹنگ میں ملوث افراد اور اسمگلرز کیخلاف کارروائی کے بعد ملکی ترسیلات زر میں 10؍ سے20؍ فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔

دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کریک ڈاؤن سے قبل ایکسچینج کمپنیوں کو روزانہ 5 ملین ڈالرز ملتے تھے لیکن اب انہیں 15؍ ملین ڈالرز مل رہے ہیں یعنی اس میں 200؍ فیصد اضافہ ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ کے ریٹس میں نمایاں کمی آئی ہے اور فی ڈالر 295؍ روپے کا ہوگیا ہے۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگر کارروائی جاری رہی تو ڈالر 250؍ روپے سے نیچے آجائے گا۔ 

انہوں نے انکشاف کیا کہ ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں، بلیک مارکیٹنگ میں ملوث افراد اور اسمگلرز کیخلاف حالیہ کارروائی کے نتیجے میں بلیک مارکیٹنگ میں ملوث افراد اور بینکوں کے درمیان گٹھ جوڑ بے نقاب ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ڈالرزکی بڑی تعداد مختلف بینکوں کے لاکرز میں رکھی گئی تھی اور بینکوں کا عملہ بلیک مارکیٹنگ میں ملوث افراد کے ساتھ مل کر یہ ڈالرز حوالہ اور ہُنڈی میں استعمال کرتے تھے، ان لاکرز کی چابیاں بینک کے کرپٹ عملے کے پاس ہوتی تھیں اور جیسے ہی انہیں بلیک مارکیٹنگ میں ملوث افراد کی طرف سے میسیج (پیغام) ملتا تھا تو یہ کرپٹ بینک عملہ امریکی ڈالرز کی غیر قانونی تجارت شروع کر دیتا تھا۔

چیئرمین ای سی اے پی نے دعویٰ کیا کہ اس غیر قانونی سرگرمی میں ملوث بینک ملازمین کیخلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ڈالر کے اس غیر قانونی کاروبار نے کئی درآمد کنندگان اور برآمد کنندگان کو بگاڑ دیا ہے۔

ایک رجحان پایا جاتا ہے کہ درآمدکنندگان اشیاء کی قیمتیں برآمد کنندگان کو بڑھا کر دکھاتے (Over Invoicing) ہیں۔ یہ درآمد کنندگان اپنی اوور انوائسنگ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ڈالر باہر بھیج دیتے ہیں جب کہ برآمد کنندگان کم قیمتیں دکھا کر اپنے حصے کے زیادہ ڈالرز غیر ملکی بینکوں میں رکھ دیتے ہیں اس سے پاکستان اور اس کے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو نقصان ہوتا ہے۔

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ڈالرز کس طرح ا فغانستان اسمگل کیے جاتے رہے۔ انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا کہ ہر صورت میں ڈالر کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام کیلئے مستقل اقدامات سے پاکستان اپنے زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کرسکتا ہے۔

6؍ ستمبر کو فوجی قیادت کی جانب سے پر زور انداز سے شروع ہونے والے اس کریک ڈاؤن کے بعد ملکی بینکوں اور اوپن مارکیٹس میں لاکھوں کروڑوں ڈالرز آچکے ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں انٹر بینک میں ایک ڈالر 308؍ جب کہ اوپن مارکیٹ میں 330؍ روپے کا ہوگیا تھا لیکن اب ریکوری ہو رہی ہے اور ڈالر کا ریٹ انٹر بینک میں 295؍ جب کہ اوپن مارکیٹ میں 296؍ روپے کا ہوگیا ہے، ڈالر کی غیر قانونی تجارت کیخلاف کارروائی کا سلسلہ جاری رہا تو ڈالر کا ریٹ مزید کم ہوگا۔ 

ملک بوستان نے کہا کہ انہوں نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے درخواست کی تھی کہ ڈالر کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی میں ملوث افراد اور مافیاز کیخلاف کارروائی کریں، کریک ڈاؤن سے قبل، لوگوں کی اکثریت بلیک مارکیٹ میں ڈیلرز سے رجوع کر رہی تھی۔

مزید خبریں :