27 ستمبر ، 2023
22 مئی 2020 جمعۃ الوداع، رمضان المبارک کا یہ وہ دن تھا جب شاید ہی کوئی پاکستانی ہو جس کی آنکھ اشکبار نہ ہوئی ہو کیونکہ اس روز پاکستان کی تاریخ کا بدترین طیارہ حادثہ ہوا جس میں 97 لوگ جان کی بازی ہار گئے تھے۔
پی آئی اے کی فلائٹ پی کے 8303 ائیرپورٹ کے قریب ماڈل کالونی کی آبادی پر گرکر تباہ ہوئی جس میں ناصرف مسافروں کی جانوں کا نقصان ہوا بلکہ ماڈل کالونی کے رہائشی لوگوں کے گھر اور گاڑیاں تباہ ہوگئیں۔
اس حادثے میں دو مسافر معجزانہ طور پر زندہ بچے جن میں سے ایک بینک آف پنجاب کے صدر ظفر مسعود تھے اور ایک زبیر تھے۔
جیو نیوز کے ایک پروگرام میں ظفر مسعود نے طیارہ حادثے سے قبل نظر آنے والے منظر سے متعلق بتایا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'مجھے جہاز گرتے وقت 30 سیکنڈز کے منظر سے متعلق تو کچھ یاد نہیں البتہ اس سے قبل ائیر ہوسٹس کی کیفیت کافی عجیب تھی، وہ بہت زیادہ گھبرائی ہوئی تھی، وہ زور زور سے رورہی تھیں اور قرآنی آیات پڑھ رہی تھیں، اس کے علاوہ بھی جہاز میں کافی ہلچل تھی'۔
ظفر مسعود کے مطابق 'اسی وقت میں بے ہوش ہوگیا، جس وقت میری آنکھیں کھلیں تو مجھے حیرانی نہیں ہوئی کہ میں بچ گیا، مجھے لگا تھا میں اللہ کے حکم سے بچ جاؤں گا، میں اس وقت بہت درد میں تھا، میرا ہاتھ دو جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا، میری ٹانگ اب بھی ٹوٹی ہوئی ہے، میری کمر جلی ہوئی تھی'۔
انہوں نے کہا کہ 'ریسکیو اہلکار سے میں نے پہلی چیز یہ کہی کہ مجھے دھیان سے اٹھائیے گا، میں کافی زخمی ہوں، وہ بہت اچھے لوگ تھے، انہوں نے جیسے ہی ایمبولینس میں ڈالا میں نے سوال کیا کہ کیا ہوا ہے؟ کیونکہ میں دوبارہ پوچھنا چاہ رہا تھا، پھر میں نے ان سے پوچھا باقی لوگوں کا کیا ہوا؟ جس پر اس نے کہا سر مجھے نہیں معلوم'۔
ظفر مسعود نے بتایا کہ 'مجھے جہاز کریش کرنے کے بعد پتا چلا اس میں میرے اپنے 3 سے 4 جاننے والے تھے'۔
ظفر مسعود نے کہا 'اسپتال پہنچتے ہی میں نے فون مانگا، لیڈی ڈاکٹر تھیں جنہوں نے وجہ پوچھی، تب میں نے کہا میری والدہ کو اطلاع کرنی ہے، پھر میں نے والد کو فون ملا کر بتایا کہ میں زندہ ہوں'۔