Time 01 نومبر ، 2023
پاکستان

فیض آباد دھرنا کیس: وزارت دفاع اورآئی بی کی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج

الیکشن کمیشن نے تحریک لبیک کی فارن فنڈنگ کو peanuts لکھا ہے، پاکستان میں peanuts کا لفظ پہلے کس نے استعمال کیا تھا؟ چیف جسٹس۔ فوٹو فائل
الیکشن کمیشن نے تحریک لبیک کی فارن فنڈنگ کو peanuts لکھا ہے، پاکستان میں peanuts کا لفظ پہلے کس نے استعمال کیا تھا؟ چیف جسٹس۔ فوٹو فائل

فیض آباد دھرنا ثانی کیس میں وزارت دفاع اور آئی بی کی درخواستیں واپس لینے کی بناید پر خارج کر دی گئیں۔

فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے الیکشن کمیشن کے وکیل پر اظہاربرہمی کرتے ہوئے کہا آپ الیکشن کمیشن کی نہیں کسی اور کی نمائندگی کر رہے ہیں، عدالت کو بالکل بھی معاونت فراہم نہیں کی جا رہی، الیکشن کمیشن کے وکیل کوئی قانونی حوالہ نہیں دے رہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے الیکشن کمیشن نے اپنےجواب میں کہا تحریک لبیک کو 15 لاکھ کی معمولی فارن فنڈنگ ہوئی، الیکشن کمیشن خود مان رہا ہے کہ 15 لاکھ کی فارن فنڈنگ ہوئی، 15 لاکھ الیکشن کمیشن کیلئے معمولی رقم ہوگی میرے لیے تو کافی رقم ہے، الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اس طرح آنکھوں میں دھول نہ جھونکے، جیسے ہمارے قانون کو بناوٹی کہا جاتا تھا الیکشن کمیشن ویسے کام کر رہا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا الیکشن کمیشن نے توکارروائی کرنی تھی کمیٹی بنانے کی ضرورت نہیں تھی جبکہ چیف جسٹس نے کہا آپ کوصرف یہ بتانا تھاکہ ایک جماعت بطور سیاسی جماعت رجسٹر ہو سکتی تھی یا نہیں، ایک بیرون ملک رہنے والا شخص پارٹی کیوں رجسٹر کرائے گا؟ ایک ہی رات میں پارٹی کیسے رجسٹر ہو جاتی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں اوپر سے حکم آیا تھا، آپ نے تو اپنی عقل و دانش استعمال کی ہوگی، دکھائیں پارٹی رجسٹریشن کے ساتھ 2 ہزار لوگوں کے شناختی کارڈ کہاں لگے ہیں؟ 

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا ہم نے پارٹی کی فنڈنگ سے متعلق چھان بین کی تھی، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا اصل مسئلہ یہ تھا پاکستان کا شہری نہ ہونے والا کیا جماعت رجسٹر کرا سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا آپ الیکشن ایکٹ 2017 کے تابع ہیں تو بتائیں اس پر عمل کیا؟ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کی عملدرآمد رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا یہ فائل آپ واپس لے جائیں اور بتائیں کیا آپ نے قانون پرعمل کیا؟ ہمارے فیصلے کو بھول جائیں، اپنا قانون دیکھ کربتائیں، کیا قانون صرف الماریوں میں رکھنے کیلئے ہے؟ کیا اس پر عمل نہیں کرنا؟ سپریم کورٹ کسی ادارے کو حکم نہیں دے رہی، صرف ذمہ داری اداکرنے کا کہاگیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابصار عالم نے اس وقت کے طاقتور شخص کے بارے میں باتیں کی ہیں، نظرثانی کی 9 درخواستیں دائر ہونا اتفاق تو نہیں ہو سکتا، پیمرا اور الیکشن کمیشن سمیت سب نے ایک ساتھ خوبصورت اتفاق سے اکٹھے فیصلہ کیا، کیا حسن اتفاق ہے کہ اتنی ساری نظرثانی درخواستیں دائر ہو گئیں، یہ بھی حسن اتفاق ہے سپریم کورٹ نے 4 سال تک نظرثانی درخواستیں مقرر نہیں کیں، سب ادارے کہہ رہے ہیں فیض آباد دھرنا غلط تھا مگر بس مگر پربات رک جاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا الیکشن کمیشن نے تحریک لبیک کی فارن فنڈنگ کو peanuts لکھا ہے، پاکستان میں peanuts کا لفظ پہلے کس نے استعمال کیا تھا؟ 

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا افغانستان پر قبضےکے بعد 1979 میں امریکا نے امداد دیتے وقت اس کیلئے peanuts کا لفظ استعمال کیا تھا جبکہ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا نہیں peanuts کا لفظ ذوالفقارعلی بھٹو نے استعمال کیا تھا، دونوں کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل نے درست بتایا ہے، ہمیں لگا تھا آئینی ادارہ کہےگا ہم سے غلطی ہوئی، یہ توکسی کے دفاع میں بیٹھا ہوا ہے۔

چیف جسٹس کا الیکشن کمیشن وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا آپ نے انہیں کہا تھا 15 لاکھ بھیجنے والے کا نام بتائیں؟ رقم بھیجنے والے نے اگرکہا تھا کہ اس کا نام ظاہر نہیں کرنا تو وہ رقم واپس کر دیتے، پاکستانی قانون تو ایسی رقم لینے کی اجازت نہیں دیتا، تحریک لبیک کو آئی فنڈنگ کی تفصیل میں ایک بھی راؤنڈ فگر نہیں، ظاہر ہوتا ہے یہ فنڈ بیرون ملک سے ہی آئے تھے جوکرنسی تبدیل کرکے ایک بھی راؤنڈ فگر نہیں بنا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا اگر کوئی 1820روپے دینا چاہتا ہے تو آپ اسے نہیں کہہ سکتے کہ پورے 1800 دو، وقت دیا جائے تو ہم اس کا جائزہ لیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اگر آپ نے عملدرآمد نہ کیا تو بتائیں ہم کیا کریں گے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم عملدرآمد نہیں کریں گے، عدالت کے پاس آرٹیکل 204 کا آپشن ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا وہ آئینی ادارہ ہے میرا خیال ہے انہیں ادراک ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم نہیں کہتے کہ فلاں کو جیل میں ڈال دو فلاں پارٹی پرپابندی لگا دو، تحریک لبیک نے کوئی نظرثانی درخواست دائر نہیں کی، تحریک لبیک کو فیض آباد دھرنا فیصلہ درست لگا ہوگا، انفرادی درخواست گزاروں کو ہم نہیں سنیں گے، تمام متعلقہ درخواست گزاروں کو ہم نے سن لیا ہے۔

دوسری جانب وزارت دفاع اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی فیض آباد دھرنا کیس میں نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی بنیاد پر خارج کر دی گئیں۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ حکومت نے عدالت کے فیصلے کو سنجیدہ نہیں لیا، آئی بی، وزارت دفاع اور  پیمرا نے نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی، وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے بھی نظرثانی درخواستیں واپس لینے کی استدعا کی۔

مزید خبریں :