سائنسدانوں نے ابو الہول کے مجسمے کا صدیوں پرانا راز جان لیا

ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / اے ایف پی فوٹو
ایک تحقیق میں اس بارے میں بتایا گیا / اے ایف پی فوٹو

صدیوں پرانے اہرام مصر عرصے سے لوگوں اور سائنسدانوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

ہزاروں سال پرانے اہرام مصر کے بارے میں ابھی بھی بہت کچھ معلوم نہیں ہوسکا ہے اور اس کو جاننے کے لیے مسلسل تحقیقی کام ہوتا رہتا ہے۔

گیزہ کے عظیم ہرم کے ساتھ ساتھ ابو الہول کا مجسمہ عرصے سے سائنسدانوں کے لیے معمہ بنا ہوا ہے جو اب تک یہ سمجھ نہیں سکے تھے کہ ہزاروں سال قبل اتنا بڑا مجسمہ کیسے تعمیر کیا گیا۔

اب سائنسدانوں نے اس حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے جان لیا کہ آخر ساڑھے 4 ہزار سال پہلے ابو الہول کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی۔

دہائیوں سے ماہرین اس خیال پر متفق تھے کہ ابو الہول کے اس مجسمے کا چہرہ پتھروں کے اوزاروں سے تراشا گیا تھا، مگر وہ یہ سمجھ نہیں سکے تھے کہ اس کا اتنا بڑا جسم کیسے تیار کیا گیا۔

نیویارک یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں اس کا ممکنہ جواب دیا گیا۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ ایسا صحرا میں صدیوں سے تیز ہواؤں کا سامنا کرنے سے چٹان میں آنے والی تبدیلیوں سے ممکن ہوا۔

محققین کے مطابق لیبارٹری تجربات سے ثابت ہوا کہ ہوا کے تیز بہاؤ سے چٹانوں میں ابو الہول جیسی ساخت کا بننا ممکن ہے۔

مگر انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ عظیم مجسمہ مکمل طور پر قدرت نے تراشا ہے بلکہ چٹان میں آنے والی تبدیلیوں کو قدیم مصریوں نے مجسمے کی شکل دی۔

اس تحقیق کے لیے انہوں نے چونے پر مبنی ماڈل چٹانیں تیار کیں اور انہیں پانی کی تیز دھار سے دھویا۔

ابو الہول کے مجسمے میں موجود اجزا کا خیال رکھتے ہوئے ان ماڈلز کے لیے نرم چونے کو استعمال کیا گیا اور پانی کے بہاؤ سے ان ماڈلز میں شیر جیسی ساخت بننا شروع ہوگئی۔

محققین کے مطابق صحرا کے اندر تیز ہواؤں کے باعث اس طرح کی چٹانوں میں قدرتی طور پر کسی جانور کے بیٹھے یا لیٹے ہونے جیسی شکل بن جاتی ہے۔

ابو الہول کا مجسمہ بہت پراسرار سمجھا جاتا ہے کیونکہ 20 میٹر لمبے اس مجسمے کو چونے کی ایک چٹان کو تراش کر تیار کیا گیا۔

1981 میں ایک ماہر ارضیات فاروق الباز نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ابو الہول کے مسجمے کی تعمیر میں تیز ہواؤں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

اب نئی تحقیق کے نتائج سے اس خیال کو تقویت ملی ہے۔

محققین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ابو الہول جیسے اسٹرکچر اس طرح کے حالات میں تشکیل پا سکتے ہیں۔

مگر انہوں نے تسلیم کیا کہ ابھی بھی اس سوال کا جواب نہیں معلوم ہوسکا کہ مجسمے کا کتنا حصہ قدرتی ہے اور کتنا حصہ انسانوں کا تیار کردہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تحقیق میں یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ سر، گردن اور پنجے کا بیشتر حصہ قدرت کا تراشا ہوا ہے۔

مزید خبریں :