14 نومبر ، 2023
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلوچ طلبا جبری گمشدگی کیس پر وفاقی حکومت کی قائم کردہ وزرا کمیٹی سے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے جبری گمشدگی کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمدکیس کی سماعت کی۔
بلوچ لاپتہ طلبا کی جانب سے ایڈووکیٹ ایمان مزاری عدالت کے سامنے پیش ہوئیں۔
وفاق کی جانب سے تین وزرا کی کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اب وزیر اعظم نے ایک اور کمیٹی بنا دی ہے، ایک لاپتہ افراد کمیشن ہے جن لوگوں پر الزام ہے وہ خود ہی اس میں بیٹھے ہوتے ہیں، اگر حکومت نے کچھ نہیں کرنا تو عدالت خود دیکھے گی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جبری گمشدگیاں ملک پر بدنامی کا داغ ہیں، ایسا نہ ہو یہ معاملہ اقوام متحدہ چلا جائے،عوام کا الزام انہی اداروں پر ہے ، جو عوام کے ٹیکس سے چل رہے ہیں ، ریاستی ادارے کام یوں کر رہے ہیں جیسے احسان کر رہے ہوں۔
عدالت نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کو مخاطب کرکےکہا کہ آپ لوگ تو اس اہم معاملے کو حل کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے، جسٹس اطہر من اللہ کی سفارش پر یہ کمیشن بنا، رپورٹ آئی پر آج تک کچھ نہیں ہو سکا، نہ عدالتیں ان کیسز میں ریلیف دے پا رہی ہیں نہ جبری گمشدگی کمیشن کچھ کر رہا ہے، وزیراعظم کے پاس اس لیے معاملہ بھیجا کہ وہ بھی اور وزیر داخلہ بھی بلوچستان سے ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ وہ کام کریں ان کو یاد رکھا جائےگا، سال ہو گیا ہے یہ طلبا گھر نہیں پہنچنے، 22 فروری 2023 کی رپورٹ ہے آج تک کیا ہوا ہے؟ حکومت یا تو پھر کہہ دے یہ رپورٹ غلط ہے یا کہے ٹھیک ہے اور اس پر عمل کرے یا پھر اداروں کے سربراہ بیان حلفی دیں کہ یہ رپورٹ درست نہیں ہے۔
عدالت نے رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 22 نومبر تک ملتوی کردی۔