13 دسمبر ، 2023
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینےکا فیصلہ معطل کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔
جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل 6 رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل، سلمان اکرم راجہ اور اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
درخواستگزار سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے بینچ کے سربراہ جسٹس سردارطارق پر اعتراض کر رکھا تھا جس پر جسٹس طارق نے بینچ سے الگ ہونے سے انکار کردیا۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس طارق نے فریقین کے وکلا سے سوال کیا کہ آپ کو نوٹس کیا ہے کسی نے؟ اس پر اعتزاز احسن نےکہا کہ نوٹس سے پہلے ججز پر اعتراض ہو تو اس پر دلائل ہوتے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ فریقین کے وکلا کا اعتراض بے بنیاد ہے پہلے میرٹس پرکیس سنیں، نوٹس کے بعد اعتراض اٹھایا جاسکتا ہے۔
جسٹس طارق نے وکلا سے سوال کیا کہ کس نے اعتراض کیا ہے؟ اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اعتراض جواد ایس خواجہ نے کیا ہے، جسٹس طارق نے جواب دیا کہ جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہےکہ جج کی مرضی ہے وہ اعتراض پربینچ سے الگ ہویانہ ہو، میں نہیں ہوتا بینچ سے الگ،کیا کرلیں گے؟
میں نہیں ہوتا بینچ سے الگ،کیا کرلیں گے؟ جسٹس طارق کا وکلا سے مکالمہ
لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ بیٹھ کر ہمارے اعتراض کے باوجود کیس سن رہے ہیں، اس پر جسٹس طارق نے کہا کہ تو کیا کھڑے ہوکر کیس کی سماعت کریں؟
اٹارنی جنرل دوران سماعت غصے میں آگئے اور کہا کہ جب نوٹس نہیں تو اعتراض کیسے سنا جاسکتا ہے؟ جنہوں نے اعتراض کیا وہ خود تو عدالت میں نہیں ہیں، بہتر ہے پہلے بینچ اپیلوں پرسماعت کا آغاز کرے۔
جسٹس طارق نے کہا کہ فوجداری کیسز میں بھی کوئی فیصلہ دوسری جانب کونوٹس کیے بغیرمعطل نہیں ہوتا، ابھی فیصلہ معطل نہیں ہوا اورنوٹس کے بغیرنہیں ہوسکتا۔
سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ عدالت ٹرائل کالعدم قراردینے کا فیصلہ ہمیں سنے بغیر معطل نہیں کرسکتی۔
جسٹس طارق نے کہا کہ دولائن میں ایک قانون کی پوری سیکشن کو کالعدم قراردیا گیا۔
ہرسویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہورہا: وزارت دفاع کے وکیل کا مؤقف
اس دوران وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ہرسویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہورہا، صرف ان سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہوگا جو قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں، فوج کی تحویل میں 104 افراد 7 ماہ سے ہیں، ملزمان کیلئے مناسب ہوگا کہ ان کا ٹرائل مکمل ہوجائے۔
عدالت نے پوچھا کہ کیا ٹرائل مکمل ہوگئے تھے؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کچھ ملزمان پر فرد جرم عائد ہوگئی تھی کچھ پرہونا تھی، بہت سے ملزمان شاید بری ہوجائیں، جنہیں سزا ہوئی وہ بھی 3 سال سے زیادہ نہیں ہوگی، اس پر عدالت نے سوال کیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہے کہ سزا 3 سال سے کم ہوگی؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کم سزا میں ملزمان کی حراست کا دورانیہ بھی سزا کا حصہ ہوگا۔
بعد ازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فوجی عدالتوں میں سویلینزکے ٹرائل معطل کرنے کے حکم پر امتناع دینے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سنایا۔
عدالت نے سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کالعدم قرار دینے کا 23 اکتوبر کا فیصلہ معطل کردیا جو عدالت نے پانچ ایک سے سنایا۔
انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلے تک 102 گرفتار افرادکے ٹرائل کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جائے گا: عدالت
6 رکنی بینچ میں سے جسٹس مسرت ہلالی نے پانچ ججوں کےفیصلے سے اختلاف کیا۔
عدالت نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیلوں پر فیصلے تک 102 گرفتار افرادکے ٹرائل کا حتمی فیصلہ نہیں کیا جائے گا اور فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہوگا۔
واضح رہےکہ حکومت نے عدالت سے 23 اکتوبر کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہت سے ہارڈ کور دہشتگرد ہیں جن کا ٹرائل ضروری ہے۔