04 جنوری ، 2024
سابق وزیر دفاع اور رہنما ن لیگ خواجہ آصف نے اپنی ہی پارٹی کی الیکشن کی تیاریوں میں سستی کا اعتراف کرلیا۔
جیو نیوز کے پروگرام آج شاہ زیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئےخواجہ آصف نے کہا کہ وہ اتفاق کرتے ہیں کہ پارٹی کو میڈیا اور عوام میں موجودگی پر کام کرنا چاہیے، ن لیگ کو انتخابی مہم اور منشور کے حوالے سے جلدی کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مریم نواز نے جلسے کیے، شہبازشریف پھر جلسے کرنے والے ہیں، یہ ٹھیک بات ہے کہ ہمیں عوامی اجتماعات بڑھانے کی ضرورت ہے ، ہم پارٹی میں ٹکٹ تقسیم کرنے اور دیگر معاملات میں بھی مصروف ہیں،الیکشن میں مہینہ رہ گیا، گزشتہ الیکشنز کی نسبت ابھی وہ ٹیمپریچر نہیں بڑھا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنما یا تو روپوش ہیں یا الیکشن نہیں لڑ رہے، تحریک انصاف میں اس وقت ایک بھی وہ لیڈر نہیں جو پچھلی اسمبلی میں تھا، اس وقت پی ٹی آئی کو ان کی قیادت اور کارکن نہیں وکلا لیڈ کر رہے ہیں،بانی پی ٹی آئی اپنے ساتھیوں اور کارکنوں پر اعتماد نہیں کرتے، عدلیہ میں پی ٹی آئی کی مرضی کی بات ہو تو تعریف ورنہ گالیوں پر آجاتے ہیں۔
فیض آباد دھرنا کمیشن کے سامنے سابق آئی ایس آئی چیف جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے بیان پر ردعمل میں خواجہ آصف نے کہا کہ سازشی کبھی مانتے ہیں کہ انہوں نے سازش کی ہے ؟ دھرنے میں تمام معاملات وہی کنٹرول کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ 2017 میں وزیراعظم ہمارے تھے لیکن حکومت اُنہی کی تھی اور بندے بھی اُنہوں نے لا کر بٹھائے تھے، میں نے جنرل باجوہ سے پوچھا دھرنے والوں کو پیسے کیوں دیے گئے ،مجھے جواب ملا کہ دھرنے والوں کے پاس جانے کا کرایہ نہیں تھا۔
خواجہ آصف نے بتایا کہ مجھے آج بلایا گیا تھا لیکن میری طبعیت خراب تھی آج نہیں جاسکا، فیض آباد دھرنے کے وقت میں وزیردفاع نہیں وزیر خارجہ تھا ، اگلی تاریخ پر جاؤں گا اور سچ ضرور بولوں گا،کبھی غلط بیانی نہیں کی ہمیشہ سچ بولا ہے۔
واضح رہے کہ آج لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے فیض آباد دھرنا کمیشن کو جواب جمع کرا دیا۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے کمیشن کی طرف سے دیے گئے سوالوں کے جواب دیے۔
ذرائع کا بتانا ہے فیض حمید نے جواب میں کہا کہ 2017 میں ہونے والے دھرنے میں اس وقت کی حکومت کی ہدایت پر تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیے تھے۔
ذرائع کے مطابق فیض حمید نے اپنے جواب میں بتایا کہ 2017 میں اس وقت وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر داخلہ احسن اقبال کی سربراہی میں کابینہ کا ایک اجلاس ہوا جس میں انٹیلی جنس کے سربراہ نوید مختار اور ملٹری قیادت بھی شریک تھی، ان تمام افراد کی مشترکہ ہدایات پر ٹی ایل پی سے مذاکرات کیے تھے۔