08 جنوری ، 2024
چیف جسٹس پاکستان نے لیول پلیئنگ فیلڈ کیس میں ریمارکس دیے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کیا چاہتی ہے کہ ان کے 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہو جائیں۔
لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کے متعلق توہین عدالت کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے علاوہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ کا حصہ تھیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ سے استفسار کیا آپ نے درخواست کے جواب میں آئی رپورٹ پڑھی؟ کوئی تقریر نہیں صرف بتائیں اس رپورٹ میں کیا غلط ہے؟
جسٹس میاں محمد علی مظہر کا کہنا تھا رپورٹ کے مطابق آپ کے 1195 لوگوں نے کاغذات جمع کروائے، ہمارے سامنے چیف سیکرٹری اور الیکشن کمیشن کی رپورٹس ہیں، رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے 76 فیصد لوگوں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے، الیکشن کمیشن کے مطابق تحریک انصاف کے زیادہ تر لوگوں کے کاغذات منظور ہی ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ ان رپورٹس کو جھٹلا رہے ہیں تو جواب میں تحریری طور پر کچھ لانا ہوگا، کھوسہ صاحب آپ یہاں کھڑے ہو کر رپورٹ کو مسترد نہیں کر سکتے، اگر الیکشن کمیشن نے غلط بیانی کی ہے تو آپ تحریری جواب جمع کروائیں۔
لطیف کھوسہ نے کہا پی ٹی آئی کے فرنٹ لائن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور نہیں ہوئے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ اپنےجواب میں خود کہہ رہے ہیں کہ ٹربیونلز نے آپ کو ریلیف دیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا پی ٹی آئی کیا یہ چاہتی ہےکہ 100 فیصد کاغذات نامزدگی منظور ہو جائیں؟ جو چاہتے ہیں وہ بتا دیں یہ قانون کی عدالت ہے زبانی تقریر سے نہیں چل سکتی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی آئی کو الیکشن چاہئیں؟ جس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا 100 فیصد الیکشن چاہئیں، چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن کاکام انتخابات کروانا ہے، یہ آپ کے بنائے ہوئے ادارے ہی ہیں، پارلیمان نے ہی بنائے ہیں یہ ادارے، ان اداروں کی قدرکریں، اگر ان کی جانب سے بیان کیے گئے حقائق غلط ہیں تو تردید کریں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کے الزامات پر تردیدی جواب آجاتا ہے توآپ کہتے ہیں یہ درست نہیں، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا دفعہ 144 لگا کر ہمارے خلاف کارروائی ہو رہی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم حکومت نہیں سپریم کورٹ ہیں، ہم کسی کی کمپئین نہیں چلا رہے، دفعہ 144 اور ایم پی او سب کیلئے ہوگا صرف پی ٹی آئی کیلئے نہیں، ہمارے سامنے نہ دفعہ 144 نہ ہی ایم پی او کو چیلنج کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا باقی کوئی سیاسی جماعت عوام میں جانا ہی نہیں چاہتی، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا اگر آپ کو پاکستان کے کسی ادارے پر اعتبار نہیں تو ہم کیا کریں، یہ کوئی سیاسی فورم نہیں، عدالت کے سامنے دکھڑے نہ سنائیں، بہت سے سیاسی فورم ہیں انھیں استعمال کریں، سب سے زیادہ درخواستیں پی ٹی آئی کی آ رہی ہیں اور سنی بھی جا رہی ہیں، الیکشن کمیشن مقدمات بھگتے یا انتخابات کروائے۔
چیف جسٹس پاکستان نے لطیف کھوسہ سے پوچھا آپ کس جماعت کے امیدوار ہیں؟لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میں پی ٹی آئی کا امیدوار ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کیا آپ نے پیپلزپارٹی چھوڑ دی ہے؟ لطیف کھوسہ بولے جی پیپلزپارٹی چھوڑے کافی دیر ہو گئی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ کے باربار بولنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ ہمیں سوال ہی نہیں کرنے دے رہے، ہمیں پوچھنے سے روک دیتے ہیں، اس طرح کریں عدالتی حکم بھی آپ خود ہی لکھوا لیں۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے سے متعلق کیس 15 جنوری تک ملتوی کر دیا، عدالت نے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان دینے سے متعلق کیس کی سماعت بھی 10 جنوری تک ملتوی کر دی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی جانب سے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر توہین عدالت کے کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے تحریک انصاف کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن کا اپنے جواب میں کہنا تھا کہ غلط بیانی پر تحریک انصاف کی درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کی جائے۔