13 جنوری ، 2024
سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلےکے انتخابی نشان کےکیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی سے بلا واپس لینے فیصلہ سنادیا۔
سپریم کورٹ میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر دوسرے روز سماعت ہو ئی جو شام 7 بجےکے بعد بھی جاری رہی، فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جو 11 بجےکے بعد سنایا گیا۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےکی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھیں، فیصلہ متفقہ طور پر سنایا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کو بلےکا نشان بحال کرنےکا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، فیصلے کے تحت پی ٹی آئی سے بلےکا نشان واپس لے لیا گیا ہے۔
5 صفحات کاتحریری فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسٰی نےتحریرکیا، چیف جسٹس نےکیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹراپارٹی انتخابات کرانےکا نوٹس 2021 میں کیا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022 تک انتخابات کرانےکا وقت دیا، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا کہا، بصورت دیگر انتخابی نشان لینےکا بتایا گیا، پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ 5 رکنی بینچ بنا جو زیر التوا ہے، پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کرا کر بھی لاہور ہائی کورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہےکہ پشاور ہائی کورٹ نے 22 دسمبر تک پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن پر فیصلہ کرنے کو کہا، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو کہا پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں کرائے، الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ کرانے پر انتخابی نشان پی ٹی آئی سےلیا، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل جج نے 3 جنوری کو فیصلہ دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی نے درخواست دائر کرتے ہوئے نہیں بتایا کہ ایسی ہی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں پانچ رکنی بینچ کے سامنے زیر التوا ہے، ایک معاملہ ایک ہائی کورٹ میں زیر التوا ہو تو دوسری ہائی کورٹ میں نہیں چیلنج ہوسکتا، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا، عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 13جماعتوں کے انتخابی نشان لیے، الیکشن کمیشن نےکہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائی کورٹ نے مسترد کی کہ وہ ممبران ہی نہیں۔
پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، آمریت نہیں چل سکتی: سپریم کورٹ
فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی، ثابت نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات کرائے، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو انٹراپارٹی انتخابات کرانا ہوتے ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کہاں کرا رہے ہیں، پشاور ہائی کورٹ کا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کو برا کہنا ان کے سامنے درخواست سے تجاوز تھا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے دو سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں۔
کسی کو لیول پلیئنگ فیلڈکے نام پر ترجیح نہیں دی جاسکتی:چیف جسٹس
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ پی ٹی آئی یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائیں یا نہیں، ہماری مرضی،کسی کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے نام پر ترجیح نہیں دی جاسکتی، تحریک انصاف میں لوگ الیکشن سے نہیں سلیکشن سے آئے، پوری باڈی مقابلے کے بغیر آئی،کسی اور کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن لڑنے ہی نہيں دیا، یہ بات واضح ہوگئی کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے لیکن پھر آپ نے آئین بدل لیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگر 6 پینل تھے اور 6 کے 6 منتخب ہوگئے تو پھر اجتماع کی کیا ضرورت تھی۔
تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں لیڈر کی عزت کے تحت لوگ ان کے فیصلےکی مخالفت نہیں کرتے، پی ٹی آئی کے پاس بانی پی ٹی آئی جیسی قیادت ہے جس کےفیصلے پر لوگوں نے اعتراض نہیں کیا۔
اس پر چیف جسٹس نےکہا کہ معذرت کے ساتھ پھر یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے، وہ اسے آمریت کہیں گے،کچھ عہدے داروں پر اعتراض نہ ہو سمجھ آتی ہے، مگر کسی پر اعتراض نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے، اب اگر 8 فروری کے انتخابات میں پارلیمنٹ میں 326 لوگ بلا مقابلہ آجائيں تو کیا وہ الیکشن ہوگا ؟ عقل و دانش بھی کوئی چيز ہوتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے آپ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگتے ہیں، اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلیئنگ فیلڈ دینی ہوگی۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ کوئی بھی انتخابی نشان دے دیں اس کے لیے بھی تیار ہیں، پارٹی کے انتخابی نشان کے بغیر امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑیں گے، ہر امیدوار کا الگ نشان ہو تو مسئلہ ہوگا۔
الیکشن کمیشن کا تحریک انصاف کے ساتھ دُہرا معیار ہے: حامد خان
تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نےکہا کہ الیکشن کمیشن کا ہدف پی ٹی آئی کا بلے کا نشان ہے، بلے کا نشان لینا ان ووٹرز کو چوائس سے محروم کرنا ہے جو پی ٹی آئی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن کا تحریک انصاف کے ساتھ دُہرا معیار ہے، آج کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہی امتیازی سلوک کی واضح مثال ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی یہ دلیل بڑی ڈرامائی ہے، مگر کیا یہ دلیل آپ نے ہائی کورٹ میں دی تھی؟ چیف جسٹس نے حامد خان سے کہا کہ اگر صرف الیکشن کمیشن آتا تو ہم چھوڑ دیتے، اب اکبر ایس بابر سامنے کھڑے ہیں تو ہم کیا کریں، اگر آپ کو غیر قانونی نکالا جائے تو آپ کیا کریں گے۔
دوران سماعت علی ظفر نے بتایا اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکالے جانے کا لیٹر نہیں ہے، انٹرا پارٹی الیکشن کے کاغذات نامزدگی نہیں ہیں، بانی پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر بھی نہیں ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا سب چھوڑیں یہ بتادیں الیکشن ہوا بھی ہے یا نہیں؟ تمام پارٹی اراکین کو یکساں موقع ملا یا نہیں؟ الیکشن کمیشن کو کاغذ کا ٹکڑا دکھا کر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ لو انتخابات کرا دیے، پی ٹی آئی تو کاغذات نامزدگی کی فیس کا بھی کوئی کاغذ نہیں دکھا رہی، پی ٹی آئی وکلا سوالات کا جواب نہیں دیں گے تو مجبوراً پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنا ہوگا۔
بظاہر آج فوج کی مداخلت نظر نہیں آرہی: چیف جسٹس
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیےکہ بظاہر آج فوج کی مداخلت نظر نہیں آرہی، ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار بالکل واضح اور سخت ترین رہا، پی ٹی آئی اگر صرف الزام تراشی اور سیاسی ڈرامہ کرنا چاہتی ہے تو ادارے کم زور ہوں گے، پی ٹی آئی کے وکیل سے کہا آپ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا الیکشن کمیشن پر دباؤ ہے تو اس کو ثابت کریں، اسٹیبلشمنٹ کیوں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈالےگی؟ آپ جب بدنیتی کا الزام لگاتے ہیں تو بتائیں کہ بدنیتی کہاں ہے ؟ عدالت آئینی اداروں کو کنٹرول تو نہیں کرسکتی، صرف میڈیا پر الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کرنا کافی نہیں ، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہوگی۔
چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ آج کل ہر کوئی اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کرتا ہے، اصل نام فوج ہے، ہمیں کھل کر اور مکمل بات کرنی چاہیے۔
جمعےکے روز کی سماعت کا احوال پڑھیے