اپنے دور میں اہم وزارتوں پر فائز اور اس وقت کے وزیراعظم کے قریب ترین سمجھی جانے والی یہ شخصیات آج سیاسی افق سے غائب ہیں۔
30 جنوری ، 2024
پاکستان میں 12 ویں عام انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے اور سیاسی جماعتوں کی انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں لیکن ان عام انتخابات میں ایک سیاسی جماعت ایسی بھی ہے جو 2018 کے عام انتخابات میں تو عروج پر تھی اور اس نے الیکشن میں اکثریت لے کر حکومت بنائی مگر اس بار وہ اپنے انتخابی نشان سے بھی محروم ہے۔
وہ سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے جو اس بار انٹرا پارٹی الیکشن کیس کے نتیجے میں اپنے انتخابی نشان ’بلے‘ سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے جس کے باعث اس کے امیدواروں کو فاختہ، لیپ ٹاپ، بینگن، ریکٹ اور مختلف نشان دیے گئے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں اتار چڑھاؤ سیاسی تاریخ کا حصہ رہے ہیں اور عام انتخابات سے پہلے سیاست گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے جس میں کوئی سیاسی جماعت رنگین نظر آتی ہے تو کسی کے رہنما اور وہ جماعت بلیک اینڈ وائٹ کی صورتحال میں ہوتی ہے۔
آج ہم بات کررہے ہیں ایسے ہی کچھ چہروں کی جو 2018 کے انتخابات میں حکومت بنانے والی تحریک انصاف سے وابستہ تھے لیکن اپنے دور میں اہم وزارتوں پر فائز اور اس وقت کے وزیراعظم کے قریب ترین سمجھی جانی والی یہ شخصیات آج سیاسی افق سے غائب ہیں۔
اسد عمر پی ٹی آئی کے اہم عہدیدار تھے جو پارٹی کے جنرل سیکرٹری تھے، وہ سال 2018 کے عام انتخابات میں اسلام آباد سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 54 اسلام آباد تھری سے کامیاب ہوئے۔
اسد عمر عمران خان کی کابینہ کے اہم وزیر تھے جنہیں وزیر خزانہ کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں تاہم اسد عمر نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے بعد انہیں منصوبہ بندی کا وزیر بنایا گیا تھا۔
سانحہ 9 مئی کے بعد پی ٹی آئی کے خلاف کیے جانے والے کریک ڈاؤن کے بعد اسد عمر نے پہلے پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا اور پھر کچھ عرصے بعد انہوں نے سیاست سے علیحدگی کا اعلان کیا جس کے بعد اب اسد عمر عملی سیاست سے باہر ہیں۔
سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری خواتین کی مخصوص نشست پر تحریک انصاف کی رکن قومی اسمبلی تھیں۔
شیریں مزاری تحریک انصاف کی حکومت میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے انتہائی قریبی وزرا میں شامل تھیں جنہیں عمران خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کا قلمدان سونپا گیا تھا جب کہ شیریں مزاری کی پارٹی اور پارٹی چیئرمین کے دفاع کے لیے پارلیمنٹ میں اکثر سیاسی مخالفین سے نوک جھونک بھی ہوتی تھی۔
تاہم سانحہ 9 مئی کے بعد سابق وزیر شیریں مزاری کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کئی بار گرفتار کیا جب کہ ان کی صاحبزادی ایمان مزاری کو بھی ریاستی اداروں کے خلاف تقریر کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
شیریں مزاری کی بار بار گرفتاری کے بعد انہوں نے جیل سے رہائی پاکر پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا جس میں شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ وہ اب فیملی کو وقت دینا چاہتی ہیں۔
عثمان ڈار کا شمار بھی عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوا کرتا ہے لیکن وہ عام انتخابات 2018 میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے تھے اور (ن) لیگ کے سینئر رہنما خواجہ آصف نے ان کو شکست دی تھی۔
عثمان ڈار عمران خان کی کابینہ کا حصہ تھے جو وزیراعظم کے معاون خصوصی تھے تاہم عثمان ڈار اب عام انتخابات 2024 میں حصہ نہیں لے رہے البتہ ان کی والدہ ریحانہ ڈار نے انتخابی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا جن کے کاغذات منظورکرلیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی دورِ حکومت میں احتساب کے نعرے لگانے والے شہزاد اکبر کو عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے اثاثوں کی چھان بین کی ذمہ داری سونپی تھی۔
شہزاد اکبر عمران خان کے قریبی لوگوں میں شامل تھے جنہیں ایسٹ ریکوری یونٹ کا سربراہ بنایا گیا تھا جب کہ وہ وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ بھی تھے۔
شہزاد اکبر نے پی ٹی آئی دور میں کئی پریس کانفرنسوں میں مسلم لیگ (ن) کے قائدین کے حوالے سے دعوے کیے جس میں انہوں نے (ن) لیگی رہنماؤں کی بیرون ملک دولت سے متعلق اعداد و شمار پیش کیے۔
عمران خان نے شہزاد اکبر کو مشیر برائے داخلہ بھی مقرر کیا تھا لیکن اچانک سابق وزیراعظم ان کی کارکردگی سے ناراض ہوگئے اور انہیں عہدے سے ہٹادیا۔
پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد شہزاد اکبر بیرون ملک چلے گئے۔
عمران خان کے معاون خصوصی کے طور پر کام کرنے والے شہباز گل پارٹی کے اہم رہنماؤں میں شمار کیے جاتے تھے جو ہر جگہ تحریک انصاف اور عمران خان کا دفاع کرتے اور مخالفین پر گولہ بار ی کرتے نظر آتے تھے۔
شہباز گل عام انتخابات 2024 میں قومی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار بھی سمجھے جاتے تھے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد شہباز گل بھی پی ٹی آئی سے دور دور نظر آئے اور پھر بیرون ملک روانہ ہوگئے۔
پی ٹی آئی دور حکومت سے پہلے بھی عمران خان کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے مراد سعید عام انتخابات 2018 میں این اے 4 سوات تھری سے کامیاب ہوئے تھے، وہ عمران خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر برائے پوسٹل سروسز تھے جو پی ٹی آئی کے سرگرم وزیر سمجھے جاتے تھے۔
مراد سعید عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ان کی عدالت میں پیشیوں پر بھی پیش پیش ہوتے تھے لیکن سانحہ 9 مئی کے بعد سے مراد سعید روپوش ہیں تاہم انہوں نے الیکشن کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے جو مسترد کردیے گئے۔
مراد سعید نے آر او کے فیصلے کو پہلے الیکشن ٹربیونل میں چیلنج کیا لیکن بعد ازاں انہوں نے اپنے کاغذات واپس لے لیے۔
عام انتخابات 2018 میں شفقت محمود نے این اے 130 لاہور 8 سے کامیابی حاصل کی تھی، تحریک انصاف کے دور حکومت میں شفقت محمود وفاقی وزیر تعلیم کے فرائض انجام دے رہے تھے جو عمران خان کے قریبی لوگوں میں شامل تھے تاہم سانحہ 9 مئی کے بعد سے شفقت محمود عملی سیاست سے دور ہیں۔
انہوں نے لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ 130 اور پنجاب اسمبلی کے حلقہ 170 سے کاغذات نامزدگی جمع کروا رکھے تھے لیکن پھر بعد میں وہ الیکشن سے دستبردار ہوگئے۔
معیشت دان سمجھے جانے والے شوکت ترین کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں تھا البتہ پی ٹی آئی نے انہیں سینیٹر منتخب کرایا تھا۔
وہ پی ٹی آئی حکومت میں آنے سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی وزیر خزانہ رہ چکے تھے لیکن اسد عمر کے وزارت چھوڑنے کے بعد پی ٹی آئی حکومت میں وزیر خزانہ کی ذمہ داریاں شوکت ترین کو سونپی گئیں۔
بعد ازاں تحریک انصاف نے انہیں سینیٹر بھی بنوایا لیکن سانحہ 9 مئی کے بعد انہوں نے نہ صرف سینیٹر شپ سے استعفیٰ دیا بلکہ سیاست سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔
عام انتخابات 2018 میں حماد اظہر نے این اے 126 لاہور 4 سے کامیابی حاصل کی تھی، وہ عمران خان کے انتہائی بااعتماد ساتھیوں میں شامل ہیں جو پی ٹی آئی کی کچن کیبنٹ کا حصہ تھے اور اس وقت کے وزیراعظم کے قریب ترین تھے، انہیں تحریک انصاف دور میں کچھ وقت کے لیے وزیر خزانہ بھی بنایا گیا تھا۔
تاہم سانحہ 9 مئی کے بعد حماد اظہر روپوش ہوگئے، انہوں نے عام انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کاغذات جمع کرائے لیکن انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہ ملی اور وہ فی الحال عملی سیاست سے غائب ہیں۔
فیصل واوڈا کا شمار بھی عمران خان کے قریبی رفقا میں ہوتا تھا، وہ عام انتخابات 2018 میں کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 249 ویسٹ سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
فیصل واوڈا عمران حکومت میں وفاقی وزیر برائے آبی وسائل بھی رہے اور اکثر عمران خان کی حمایت میں مخالفین پر تیر برساتے نظر آتے تھے لیکن عمران دور میں ہی ان کے پارٹی سے اختلافات سامنے آئے اور پی ٹی آئی نے انہیں پارٹی سے ہی باہر کردیا۔
فیصل واوڈا فی الحال کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہیں اور وہ عام انتخابات میں بھی حصہ نہیں لے رہے۔
عام انتخابات 2018 میں پی پی 286 ڈیرہ غازی خان سے رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے عثمان بزدار ایک غیر معروف سیاسی شخصیت تھے۔
پی ٹی آئی دور حکومت میں عثمان بزدار اچانک سیاست میں اس وقت نمودار ہوئے جب عمران خان نے حیران کن طور پر ایک غیر معروف سیاستدان کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے چنا۔
عثمان بزدار تقریباً 4 سال پنجاب کے وزیراعلیٰ رہے لیکن ان کے دور میں انہیں مسلسل تنقید کا سامنا رہا جب کہ یہ رپورٹس بھی میڈیا پر نشر ہوئیں کہ عمران خان اور اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوری کی پہلی وجہ عثمان بزدار بھی تھے جن کی کارکردگی سے مقتدر حلقے خوش نہیں تھے، انہوں نے عمران خان سے بزدار کو بارہا ہٹانے کا کہا لیکن بزدار کو نہیں ہٹایا گیا۔
لیکن عمران خان کو بلآخر یہ سخت فیصلہ لینا پڑا، پھر بزدار کو وزارت سے ہٹاکر پرویز الٰہی کو یہ قلمدان سونپا گیا تاہم سانحہ 9 مئی کے بعد عثمان بزدار نے بھی پی ٹی آئی اور سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی۔
ذلفی بخاری عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے انتہائی قریب ترین سمجھے جاتے ہیں وہ پی ٹی آئی دور حکومت میں عمران خان کےمعاون خصوصی رہے جن سے متعلق یہ سمجھا جارہا تھا کہ وہ عام انتخابات 2024 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولدڑز میں شامل ہوں گے تاہم پارٹی کے دیگر کرتا دھرتاؤں کی طرح وہ بھی منظر عام سے غائب ہیں۔
تحریک انصاف کے رہنما اور عمران خان کے دیرینہ ساتھی فیصل جاوید بانی پی ٹی آئی کے قریبی لوگوں میں شامل ہیں جو عموماً جلسے جلوسوں میں کمپیرنگ کے فرائض انجام دیتے تھے اور پی ٹی آئی حکومت میں بھی کافی سرگرم تھے۔
عمران خان نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں فیصل جاوید کو معاون خصوصی مقرر کررکھا تھا جو ہر پلیٹ فارم پر نہ صرف پی ٹی آئی کی پالیسیوں کو دفاع کرتے تھے بلکہ مخالفین پر بھی مسلسل تنقید کرتے تھے۔
تاہم سانحہ 9 مئی کے بعد سے فیصل جاوید روپوش ہیں، وہ تحریک انصاف کی طرف سے سینیٹ کے رکن ہیں جن کی رکنیت کی مدت مارچ میں ختم ہوگی۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف حکومت کے کئی نام ایسے ہیں جو اس وقت طاقتور تصور کیے جاتے تھے لیکن اب وہ شخصیات یا تو پارٹی سے کنارہ کشی اختیار کرچکی ہیں یا کسی اور جماعت میں شامل ہوچکی ہیں۔
پی ٹی آئی کے ان سابق اہم رہنماؤں میں عون چوہدری، علی زیدی، عمران اسماعیل، فرخ حبیب، فردوس عاشق اعوان، عامر کیانی، فواد چوہدری، فیاض چوہان اور دیگر شامل ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خود بانی پی ٹی آئی عمران خان بھی اس الیکشن میں حصہ نہیں لے سکیں گے کیونکہ عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد تمام حلقوں سے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جاچکے ہیں۔