24 جنوری ، 2024
راولپنڈی: پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکا اور سائفر کیس میں گواہ اسد مجید کے بیان کی کاپی جیو نیوز نے حاصل کر لی۔
سابق سفیر برائے امریکا اسد مجید نے گزشتہ روز خصوصی عدالت میں اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔
جیو نیوز کو موصول کاپی کے مطابق اسد مجید کا کہنا تھا جنوری 2019 سے مارچ 2022 تک امریکا میں بطور سفیر تعینات تھا، 7 مارچ 2022 کو ڈونلڈ لو کے ساتھ پاکستان ہاؤس میں ورکنگ لنچ کا انتظام کیا تھا، ملاقات کا مقصد کووڈ 19 سے متعلق پاکستانی سفارتکاروں کو درپیش مسائل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ملاقات میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن نوید صفدر بخاری، ملٹری اتاشی بریگیڈیئر نعمان اعوان اور پولیٹیکل کونسلر قاسم محی الدین بھی شریک تھے۔
اپنے بیان میں اسد مجید نے کہا کہ ڈونلڈ لو سے ملاقات ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھی، ملاقات میں شامل دونوں فریقین کو معلوم تھا منٹس آف میٹنگ ریکارڈ ہو رہے ہیں، ڈونلڈ لو سے ملاقات کی ساری گفتگو سائفر کی صورت میں اسلام آباد بھیجی گئی۔
اسد مجید نے اپنے بیان میں کہا کہ سائفر ٹیلی گرام میں کہیں پر سازش یا دھمکی کا کوئی ذکر نہیں تھا، سائفر کو سازش قرار دینے کا فیصلہ اس وقت کی سیاسی قیادت کا تھا، سائفر ٹیلی گرام فارن سیکرٹری کو بھیجا گیا انہوں نے تمام متعلقہ افراد سے شیئر کیا۔
سابق سفیر نے بتایا کہ مجھے 22 اپریل 2022 کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بلایا گیا، کمیٹی نے پاکستان میں امریکی سفارتخانے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ واشنگٹن کو ڈیمارش کرنے کی سفارش کی۔
ان کا کہنا تھا قومی سلامتی کمیٹی میں فیصلہ ہوا کہ سائفر کوئی سازش نہیں تھی، وزارت خارجہ نے بھی سائفر کو سازش قرار نہیں دیا تھا، سائفر ایپیسوڈ سے پاکستان اور امریکا کے تعلقات شدید متاثر ہوئے، سائفر کو سازش قرار دینا پاک امریکا تعلقات کیلئے سیٹ بیک تھا۔