25 جنوری ، 2024
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے بلےکے انتخابی نشان سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
38 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے تحریر کیا ہے۔
فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کافیصلہ کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کا 10 جنوری کا مختصر فیصلہ چیلنج کیا، پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی14شکایات پر فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا، تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات میں اپنے ہی ممبران کو لاعلم رکھا، قانون کے مطابق پی ٹی آئی کو بلےکا انتخابی نشان نہیں دیا جاسکتا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو متعدد شوکاز نوٹس جاری کیے، شوکاز کے باوجود پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے، الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لےسکتا ہے، انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر انتحابی نشان واپس لیا جاسکتا ہے۔
فیصلے میں الیکشن ایکٹ 2017 کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہےکہ پی ٹی آئی کو بلے سے محروم کرنےکی ذمہ داری پارٹی معاملات چلانے والوں پر ہے، انٹرا پارٹی الیکشن نہ کرانےکی ذمہ داری ان پر ہے جو اپنی پارٹی میں جمہوریت نہیں چاہتے، کسی جماعت کو معمولی بےضابطگی پر انتخابی نشان سے محروم نہیں کرنا چاہیے، انٹراپارٹی انتخابات کا نہ ہونا آئین وقانون کی بڑی خلاف ورزی ہے، انٹراپارٹی الیکشن جیت کر آنے والوں کو یہ اختیار ملتاہےکہ وہ پارٹی امور چلائیں، الیکشن کمیشن کو اختیار ہےکہ انٹراپارٹی الیکشن نہ ہونے پر انتخابی نشان نہ دے، جب الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات کے لیے سال کاوقت دیا اس وقت تحریک انصاف حکومت میں تھی، اس وقت بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے، اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی حکومتیں تھیں، متعددنوٹس جاری اور اضافی وقت دینے کے باوجود تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرائے۔
تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا: سپریم کورٹ
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات کے انعقاد میں قانونی تقاضوں کو نظر انداز کیا، 10جنوری 2024 کا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے، الیکشن کمیشن کا 22 دسمبر 2023 کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے، ناقابلِ فہم ہےکہ پشاور ہائی کورٹ نے درخواست گزار کو الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہونے کا کہا، 20 دن بعد پشاور ہائی کورٹ نےفیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق کچھ نہیں کرسکتا، پشاور ہائی کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی نظر انداز کیا اور حتمی فیصلےکا انتظار بھی نہ کیا، لاہور ہائی کورٹ میں یہ معاملہ لارجر بینچ کے سامنے زیر سماعت تھا، پشاور ہائی کورٹ کے سامنےمحض سرٹیفکیٹ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کا معاملہ تھا، انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہی نہیں تو سرٹیفکیٹ کا معاملہ کیسے برقرار رکھا جاسکتا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے اختیارات میں دخل اندازی کی: سپریم کورٹ
عدالت عظمیٰ کا کہنا ہےکہ الیکشن کمیشن کا ایسے حالات میں مکمل اختیار ہے، پشاور ہائی کورٹ کی الیکشن کمیشن کے اختیارات میں دخل اندازی اختیارات سے تجاوز ہے، ہائی کورٹ کیسے الیکشن کمیشن کے 22 دسمبر کا فیصلہ غیر قانونی قرار دے سکتی ہے، واضح کرناچاہتے ہیں کوئی شخص بلامقابلہ آئے تو منتخب تصور ہوتا ہے، انٹراپارٹی انتخابات نہ ہونےکی صورت میں پی ٹی آئی کے اہم عہدوں پر براجمان افراد پر سوالات اٹھتے ہیں، اگر ہرکوئی بلامقاملہ منتخب ہو اور انتخابات کا ثبوت بھی نہ ہو تو یہ الگ معاملہ ہے۔
انٹراپارٹی انتخابات میں ووٹ کا حق عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق جیسا ہے: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ عمرایوب خودکو بغیردستاویزی ثبوت پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جیسا اہم عہدیدار کہتے ہیں،گوہرعلی خان خود کو پی ٹی آئی کا چیئرمین کہتے ہیں جب کہ ان کے پاس کوئی ٹھوس دستاویزی ریکارڈ نہیں، گوہر علی خان نے خود کو بانی کی جگہ پی ٹی آئی کا چیئرمین ظاہرکیا، پشاور ہائی کورٹ نے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو صرف سرٹیفکیٹ اجرا تک محدود کیا، ہائی کورٹ نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 (1) کو نظرانداز کیا، الیکشن ایکٹ کےمطابق انٹراپارٹی کے بعد ہی سرٹیفکیٹ کا معاملہ آتا ہے، برطانیہ میں انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق کوئی مخصوص قانون نہیں، اس کایہ مطلب نہیں کہ سیاسی جماعتیں وہاں پارٹی الیکشن نہیں کراتیں، 2022 میں بورس جانسن وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہوئے لیکن اپنا جانشین مقرر نہیں کیا، الزبتھ ٹرس، رشی سونک کو شکست دےکر وزیراعظم منتخب ہوئیں، الزبتھ ٹرس کے استعفے کے بعد رشی سونک بلا مقابلہ منتخب ہوئے، انٹراپارٹی انتخابات میں ووٹ کا حق بھی عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق جیسا ہی ہے، امریکی سپریم کورٹ نے اپنے متعدد فیصلوں میں انٹراپارٹی انتخابات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
جب کیس ایک ہائیکورٹ میں ہو تو دوسری ہائیکورٹ مداخلت نہیں کرسکتی: سپریم کورٹ
فیصلے کے مطابق کوئی بھی فریق ایک کیس دو مختلف عدالتوں میں نہیں لے کر جاسکتا، ضابطہ دیوانی کا سیکشن 10 ایک معاملہ 2 مختلف عدالتوں میں لےکر جانےکی ممانعت کرتا ہے، ایک کیس ایک عدالت میں ہو تو دوسری عدالت اس کیس پرکارروائی جاری نہیں رکھ سکتی، ایک فریق ایک ہی معاملہ دو مختلف ہائی کورٹس میں لے کر جائے تویہ قانون کی حکمرانی اور جوڈیشل پراسیس کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، سپریم کورٹ صلاح الدین ترمذی کیس میں یہ اصول طےکرچکی ہےکہ جب کیس ایک ہائی کورٹ میں ہو تو دوسری ہائی کورٹ مداخلت نہیں کرسکتی۔
انٹراپارٹی انتخابات کے بغیر کسی سیاسی جماعت کا کوئی وجود نہیں:سپریم کورٹ
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ انٹراپارٹی انتخابات کے بغیر کسی سیاسی جماعت کا کوئی وجود نہیں، انٹراپارٹی انتخابات کے بغیر جماعت کا اپنے ممبران سے تعلق ختم ہوجاتا ہے، ہم اس کیس میں صرف یہ دیکھ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات ہوئے یا نہیں، ہم اس گہرائی میں نہیں جارہےکہ انٹرا پارٹی انتخابات کیسے ہوئے، تحریک انصاف کےساتھ طویل وابستگی رکھنے والے 14ممبران نے شکایت کی، انہیں ووٹ کا حق نہیں دیا گیا، 14 ممبران نے تحریک انصاف کے موقف کو رد کرکے ثابت کیا کہ وہ اب بھی تحریک انصاف میں ہیں، ممبرشپ یا پارٹی رکن نہ ہونےکا الزام ثابت کرنےکی ذمہ داری اس پر ہےجو اس کی نفی کر رہاہے، الیکشن کمیشن میں یہ ثابت کرناچاہیے تھا کہ جو 14 افراد شکایت کنندہ ہیں وہ پارٹی ممبران نہیں۔
سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن میں یہ بھی ثابت نہیں کیا جاسکا کہ یہ 14 لوگ کسی اور جماعت میں گئے ہیں یا انہیں پارٹی سے نکال دیاگیا ہے، اگرکسی رکن کو سیاسی جماعت سے نکالا یا یہ معطل کیا تو اس میں الیکشن ایکٹ کا سیکشن 205 مدنظر رکھنا لازم ہے، الیکشن ایکٹ کا سیکشن 205 کہتا ہے کہ کسی ممبر کو نکالنے یا معطل کرنے سے پہلے پارٹی آئین میں طے کردہ طریقہ کار کو مدنظر رکھا جائے، سیکشن 205 کی ذیلی شق 2 کے مطابق کسی ممبرکو سیاسی جماعت سے نکالنے سے قبل شوکاز نوٹس جاری کرکے اسے دفاع میں معقول وقت فراہم کیا جائے،اس کیس میں تحریک انصاف ریکارڈ سےثابت کرنے میں ناکام رہی کہ ان 14ممبران کوپارٹی سے نکالا گیا، اکبرایس بابر کے بانی رکن ثابت کرنے کے لیے کئی دستاویزات پیش کیے گئے، اکبر ایس بابر کے بانی رکن ہونے کے حق میں ایک عدالتی فیصلہ بھی پیش کیا گیا۔