گیس لائن منصوبہ، ایران نے ڈیڈ لائن بڑھادی، تہران کا پاکستان پرسنجیدگی دکھانے کیلئے زور

اگر پاکستان نے مثبت جواب نہ دیا تو ایران پیرس میں قائم بین الاقوامی ثالثی فورم میں پاکستان کیخلاف 18؍ ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ دائر کرے گا/ فائل فوٹو
اگر پاکستان نے مثبت جواب نہ دیا تو ایران پیرس میں قائم بین الاقوامی ثالثی فورم میں پاکستان کیخلاف 18؍ ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ دائر کرے گا/ فائل فوٹو

اسلام آباد: سینئر سرکاری افسران نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ ایران نے انتہائی زیادہ تاخیر کا شکار ایران پاکستان (آئی پی) گیس لائن منصوبے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے پر پاکستان کو 180؍ دن کی ڈیڈ لائن ستمبر 2024 تک بڑھا دی ہے اور اگر پاکستان نے مثبت جواب نہ دیا تو ایران پیرس میں قائم بین الاقوامی ثالثی فورم میں پاکستان کیخلاف 18؍ ارب ڈالرز ہرجانے کا دعویٰ دائر کرے گا۔

تاہم، ایران نے پاکستان کو اپنی تکنیکی اور قانونی مہارت فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی ہے تاکہ دونوں فریقین کیلئے مشترکہ کامیابی کی حکمت عملی اختیار کی جا سکے اور معاملہ انٹرنیشنل آربریٹریشن میں لیجانے سے گریز کیا جا سکے، ساتھ ہی پاکستان کو ایران پر عائد امریکی پابندیوں کے اثرات سے بھی بچایا جا سکے۔

ایران کی تکنیکی اور قانونی مہارت فراہم کرنے والی ٹیم 21؍ تا 24؍ جنوری کیلئے دورے پر پاکستان آنے والی تھی تاکہ آئی پی گیس لائن پروجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے درمیانہ راستہ اختیار کیا جا سکے لیکن دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کی وجہ سے یہ ٹیم نہ آسکی۔

سرحدی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات مختصر وقت کیلئے منقطع ہوئے لیکن اب یہ تعلقات بحال اور معمول پر آ چکے ہیں۔

حکام کے مطابق، عالمی قوانین کے ماہرین، لیگل فریم ورک اور گیس انجینئرز پر مشتمل ایرانی ٹیم فروری کے دوسرے ہفتے میں پاکستان آئے گی تاکہ دو طرفہ بات چیت ہو سکے، دونوں ممالک کی رابطہ کمیٹیاں اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے قابل عمل حکمت عملی تیار کریں گی۔

ایران پاکستان گیس لائن پروجیکٹ 2014ء سے تاخیر کا شکار ہے۔ پاکستان کو تازہ ترین نوٹس 25؍ روز قبل موصول ہوا تھا۔

اس سے قبل ایران نے نومبر دسمبر 2022ء میں پاکستان کو دوسرا نوٹس بھیجا تھا کہ پاکستان اپنی سائیڈ پر گیس پائپ لائن منصوبے کا حصہ فروری یا مارچ 2024ء تک تعمیر کر لے بصورت دیگر 18؍ ارب ڈالرز ہرجانہ ادا کرنے کیلئے تیار رہے۔

اس سے قبل پہلا نوٹس 2019ء میں بھیجا گیا تھا کہ معاہدے کے مطابق پاکستان کی جانب سے اپنی سرزمین پر گیس پائپ لائن کا حصہ تعمیر کرنے میں ناکامی پر ایران عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کرے گا، اور اس مقصد کیلئے ایران نے گیس سیلز پرچیز ایگریمنٹ (جی ایس پی اے) کی جرمانے کی شقیں عائد کرنے کی دھمکی دی تھی۔

جی ایس پی اے پر 2009ء میں 25؍ سال کیلئے دستخط کیے گئے تھے ۔ پاکستان یہ دلیل دیتا آیا ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان اپنی سرزمین پر اس پروجیکٹ پر کام نہیں کر پایا۔ تاہم، ایرانی حکام اس دلیل کو نہیں مانتے اور امریکی پابندیوں کو بلا جواز قرار دیتے ہیں۔ عراق اور ترکی طویل عرصے سے ایران سے گیس خرید رہے ہیں کیونکہ انہوں نے امریکی پابندیوں میں پائے جانے والے استثنیٰ کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اسی طرح، بھارت کو بھی اپنی معیشت کیلئے پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر چھوٹ حاصل ہے۔

اس دوران پاکستان نے کئی بار امریکی حکام سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ گیس پائپ لائن پروجیکٹ کا حصہ بننے پر کیا ایران پر امریکی پابندیوں کا پاکستان پر کوئی اثر پڑے گا یا نہیں، تاہم، امریکا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جی ایس پی اے پر فرانسیسی قانون کے تحت دستخط کیے گئے تھے اور پیرس میں قائم ثالثی عدالت دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات طے کرنے کا فورم ہے۔

فرانسیسی ثالثی عدالت امریکی پابندیوں کو تسلیم نہیں کرتی۔ پاکستان کے سینئر سرکاری حکام نے ایک حکمت عملی تیار کی ہے جس پر ایرانی ماہرین سے تبادلہ خیال کیا جائے گا جس کے تحت گوادر سے ایرانی سرحد پر اس مقام تک 81؍ کلومیٹر طویل آئی پی گیس لائن منصوبے پر جزوی طور پر کام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جہاں تک ایران پہلے ہی گیس پائپ لائن بچھا چکا ہے۔ اس سے پاکستان کو 18 ارب ڈالر کے متوقع جرمانے سے بچنے میں مدد ملے گی۔

منصوبے کے مطابق حکام نے بتایا کہ 81؍ کلومیٹر طویل پائپ لائن گوادر کو آئی پی گیس لائن منصوبے سے منسلک کرے گی اور گیس گوادر میں استعمال ہو گی۔

ابتدائی طور پر اگر امریکا نے کسی قسم کی پابندیاں عائد نہ کیں تو پائپ لائن کو گوادر سے نواب شاہ تک وسعت دی جائے گی۔ امریکا کی جانب سے پابندیاں عائد کیے جانے کی صورت میں پاکستان کے پاس اس منصوبے کو ترک کرنے کی معقول وجہ ہاتھ آ جائے گی اور اس طرح پاکستان عالمی عدالت میں ہرجانے سے بچ پائے گا۔

اس معاملے پر پاکستان اور ایران کی اعلیٰ سطح کی قیادت مسلسل رابطے میں ہیں، جبکہ پاکستان کی اسپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کو بھی اس معاملے پر ایران کے تازہ ترین نوٹس سمیت پروجیکٹ کی تفصیلات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔

ایس آئی ایف سی کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کو پائپ لائن بچھانے کے معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا بصورت دیگر اسے جرمانے کا سامنا ہوگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم (آئی ایس جی ایس) کے پاس 81؍ کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کیلئے فنڈز دستیاب ہیں۔

وزارت خزانہ کے پاس ساڑھے تین سو ارب روپے (1.2؍ ارب ڈالرز) کی رقم موجود ہے جو جی آئی ڈی سی (گیس انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس) کی مد میں جمع کیے گئے تھے۔ یہ رقم پائپ لائن کو نواب شاہ تک پہنچانے کیلئے استعمال کی جائے گی۔

مزید خبریں :