12 فروری ، 2024
عام انتخابات 2024 کے نتائج مکمل ہوچکے ہیں جس کے بعد سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کی پارٹی پوزیشن واضح ہوچکی ہے اور اب حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔
اس 3D نقشے میں وہ حلقے جو سب سے زیادہ بلند ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ یہاں جیتنے والے امیدوار نے دیگر حلقوں کی نسبت کتنے زیادہ یا کم ووٹ حاصل کیے۔
مرکز میں شراکت اقتدار کا فارمولا تیار
ذرائع کے مطابق مرکز میں حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان شراکت اقتدار کا فارمولا تیار کر لیا گیا ہے، دونوں جماعتوں نے دو نکاتی فارمولے پر اتفاق کر لیا ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ پہلے مرحلے میں زیادہ نشستوں والی پارٹی کا وزیراعظم 3 سال رہے گا جبکہ دوسرے مرحلے میں 2 سال کے لیے دوسری جماعت کا وزیراعظم ہو گا جبکہ پیپلز پارٹی پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے مریم نواز کی حمایت کی یقین دہانی کرائے گی۔
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان نے پیپلز پارٹی کے ساتھ پاور شیئرنگ کے معاملے پر بات چیت کی خبروں کی تردید کردی۔
ایک بیان میں مریم اورنگزیب نے کہا کہ ابھی تک وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے نام کا پارٹی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا، اس حوالے سے اتحادی پارٹیوں سے مشاورت جاری ہے۔
لیگی ترجمان کا کہنا تھاکہ پاور شیئرنگ سے متعلق کوئی گفتگو نہیں ہوئی اور پاور شیئرنگ گفتگو کا حصہ نہیں ہے البتہ ساتھ چلنے پر مشاورت ہوئی ہے، جو بھی فیصلہ کریں گے مشاورت سے کریں گے اور اعلان کریں گے۔
عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ جاری ہے جس میں آزاد امیدواروں کو گیم چینجر کی حیثیت حاصل ہے۔
حکومت سازی کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت میں رابطے ہورہے ہیں جب کہ ایم کیو ایم کا وفد بھی (ن) لیگ کے قائدین سے لاہور میں ملاقات کرچکا ہے۔
ذرائع کے مطابق (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے درمیان ہونے والی ملاقات میں لیگی وفد نے مؤقف اپنایا کہ وزیراعظم مسلم لیگ ن کا ہوگا جبکہ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی بلاول بھٹو کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کر چکی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کے درمیان ہونے والی اس ملاقات میں دونوں جماعتوں کے درمیان وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں اتحادی حکومتیں بنانے پر اتفاق ہوا ہے۔
پارٹی چاہتی ہے بلاول وزیراعظم ہوں: فیصل کنڈی
جیو نیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے پی پی رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کا مؤقف ہے کہ بلاول بھٹو وزیراعظم کے امیدوار ہوں، کیونکہ کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ ہمارے بغیر حکومت بنائے، (ن) لیگ کی جہاں تک بات ہے تو عددی برتری تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کوبھی حاصل ہے لیکن کوئی بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ مکمل خبر پڑھیں۔۔
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو ان کے مشیروں کی حیثیت رکھنے والے پارٹی کے ایک سے زیادہ رفقا نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایک ’کمزور اتحادی‘سے زیادہ بہتر ’طاقتور اپوزیشن‘ کی ہے۔
اس لیے خدشات اور تحفظات کے ساتھ حکومت کا حصہ بننے کے بجائے ہمارا اپوزیشن میں بیٹھنا بہتر ہوگا، پیپلزپارٹی کی ’سی ای سی‘ کا اہم اجلاس آج اسلام آباد میں ہو گا، زرداری اور بلاول مشترکہ صدارت کرینگے۔
اس تجویز کے بڑے حامی قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی اسپیکر کے سیکرٹری اطلاعات فیصل کریم کنڈی جب کہ اس تجویز کی حمایت میں پارٹی کے بعض ارکان نے ’ایکس‘پر پوسٹیں بھی کی ہیں۔ مکمل خبر پڑھیں۔۔
پاکستان میں عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی میں قائد ایوان کے انتخاب کے موقع پر اگر کسی بھی سیاسی جماعت کا امیدوار سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکا تو پھر وزارت عظمیٰ کا انتخاب کیسے اور پارلیمنٹ کا مستقبل کیا ہوگا۔
8 فروری کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کو ایوان میں اتنی سادہ اکثریت حاصل نہیں کہ وہ تنہا حکومت بنا سکے جبکہ دوسری طرف پارلیمنٹ میں پہنچنے والے چاروں بڑے پارلیمانی گروپوں یا پارٹیوں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین اسمبلی، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان شراکت اقتدار کا کوئی فارمولا ابھی تک طے نہیں ہو سکا جس وجہ سے عوام کی بے چینی بڑھ رہی ہے اور یہ سوال زیر بحث ہے کہ اگر وزارت عظمیٰ کا کوئی بھی امیدوار سادہ اکثریت حاصل نہ کر سکا تو آگےبڑھنے کا راستہ کیا ہو گا۔ مکمل تحریر پڑھیں۔۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک(فافن) کی رپورٹ کے مطابق ملک میں کل 12 کروڑ 66 لاکھ 50 ہزار 183ووٹ رجسٹرڈ تھے جن میں سے قومی اسمبلی کی 263 نشستوں پر 6 کروڑ 5 لاکھ 8 ہزار 212 ووٹ کاسٹ ہوئے اور ووٹنگ کا تناسب 47.8 فیصد رہا۔
پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے ڈائریکٹر مدثر رضوی نے کہا کہ رجسٹرڈ ووٹرز بڑھنے سے سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔
ڈائریکٹر فافن کے مطابق اس مرتبہ عورتوں کے ووٹوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ خواتین ووٹرز کو باہر لائیں، گزشتہ الیکشن میں ٹرن آؤٹ 52 فیصد تھا، اس الیکشن میں47.8 فیصد رہا۔