16 فروری ، 2024
اسلام آباد: سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے دو ٹوک الفاظ میں مولانا فضل الرحمان کے بیان کی تردید کی ہے۔
سابق آرمی چیف اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے قریبی ذرائع نے مولانا کے بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جے یو آئی امیر کو چاہیے کہ وہ پہلے اپنے حقائق درست کر لیں کیونکہ جنرل فیض حمید عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے جانے سے کئی ماہ قبل آئی ایس آئی چھوڑ چکے تھے۔
مولانا صاحب یہ بھول گئے ہیں کہ جس وقت عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تھی اس وقت جنرل فیض کور کمانڈر پشاور تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جنرل فیض نومبر 2021ء میں اسلام آباد سے جا چکے تھے۔
جنرل باجوہ کے قریبی ذریعے کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف کی مولانا سے دو مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔
ایک ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب مولانا اس وقت کے آرمی چیف کے گھر اس وقت ملنے گئے جب مولانا عمران خان کیخلاف لانگ مارچ کر رہے تھے، کہا جاتا ہے کہ یہ ملاقات ناخوشگوار رہی تھی۔
جنرل باجوہ کی دوسری ملاقات مولانا فضل الرحمان کے ساتھ 26؍ مارچ 2022ء کو دوسرے کئی اپوزیشن رہنماؤں کی موجودگی میں ہوئی تھی جن میں شہباز شریف، بلاول بھٹو، اختر مینگل، شاہ زین بگٹی اور خالد مقبول صدیقی بھی موجود تھے، ملاقات میں ایک اہم جنرل بھی شامل تھے۔
ذریعے کا کہنا تھا کہ دونوں فوجی جرنیلوں نے اپوزیشن جماعتوں سے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر ملاقات کی تھی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک واپس لی جائے۔
باجوہ کے قریبی ذریعے کا کہنا تھا کہ دونوں جرنیلوں نے اپوزیشن رہنماؤں پر زور دیا کہ عمران خان کو اپنی مدت مکمل کرنے دی جائے۔ ذریعے نے کہا کہ جب اپوزیشن رہنماؤں نے کسی طرح کی لچک نہ دکھائی تو ان سے کہا گیا کہ عدم اعتماد کی تحریک واپس لی جائے اور اس کے بدلے عمران خان انتخابات کا اعلان کر دیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ دونوں جرنیلوں کو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے طلب کرکے اپنی حکومت عدم اعتماد کی تحریک سے بچانے کے آپشنز پر بات کی تھی اور چند اہم وزراء کی موجودگی میں مختلف آپشنز پر بات ہوئی تھی۔ اسی ملاقات میں جرنیلوں سے کہا گیا تھا کہ اپوزیشن والوں سے رابطہ کریں تاکہ حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک سے بچایا جا سکے۔
ذریعے نے جنرل باجوہ کے حوالے سے کہا کہ سابق آرمی چیف حلفیہ طور پر مولانا کے بیان کی تردید کیلئے تیار ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ مولانا بھی اس بارے میں حلفیہ بیان دیں گے تاکہ سچ سامنے آ سکے۔
نوٹ: یہ خبر آج 16 فروری 2024 کے جنگ اخبار میں شائع ہوئی ہے