سپریم کورٹ کا بھٹوکیس میں لواحقین اور مدعی احمد رضا قصوری کو بھی سننےکا فیصلہ

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

سپریم کورٹ کا ذوالفقار  علی بھٹو کیس میں لواحقین  اور  مدعی احمد رضا قصوری کو  بھی سننےکا فیصلہ کیا ہے۔

سپریم کورٹ میں ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کے خلاف دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی،  چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ  نے سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت پر عدالتی معاونین سے تحریری دلائل طلب کیے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے متعلق مخدوم علی خان عدالت کی معاونت کر رہے ہیں۔

سابق جج اسد اللہ چمکنی بھی عدالتی معاون کے طورپرپیش ہوئے، چیف جسٹس نے ان سےکہا کہ  آپ فوجداری قانون کے ماہر ہیں،آپ کو دوسرے مرحلے میں سنیں گے۔

عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالتی معاون  مخدوم علی خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ  مولوی تمیز الدین خان کیس میں سپریم کورٹ نے اہم نکتہ اٹھایا تھا۔

جسٹس منصور  نےکہا کہ  اصل سوال یہ ہےکہ عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ میں  ذوالفقار علی بھٹو کیس فیصلے میں بدنیتی پربات کروں گا۔

ذوالفقاربھٹو کیس کے فیصلے میں غلطی کا اعتراف کیا گیا ہے:چیف جسٹس

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کے سابق  چیف جسٹس نے پھانسی کے فیصلے میں بدنیتی کی یا اعتراف جرم کیا؟ سابق چیف جسٹس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تو اسے بدنیتی نہیں اعتراف جرم کہیں گے، ذوالفقارعلی بھٹو کیس کے فیصلے میں غلطی کا اعتراف کیا گیا ہے، جان بوجھ کرغلط کام کیا جائے تو اسے بدنیتی نہیں کہیں گے۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ  سابق چیف جسٹس نے انٹرویو میں کہا  تھا کہ ان پر فیصلے کے لیے دباؤ تھا۔

چیف جسٹس نےکہا کہ ہمارا اختیار  سماعت بالکل واضح ہے، دوبارہ نظرثانی نہیں ہوسکتی، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں، اگر میں دباؤ  برداشت نہیں کرسکتا  تو مجھے عدالتی بینچ  سے الگ  ہوجانا چاہیے، ایک شخص کہہ سکتا ہےکوئی تعصب کا شکار ہے، ہوسکتا ہے دوسرا یہ رائے نہ  رکھے۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ  پنوشےکیس میں جج  پر جانبداری کا الزام لگا تھا، پنوشے کیس میں تین دو کے تناسب سے فیصلہ آیا، جیسے بھٹوکیس میں چار تین کا فیصلہ تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس کیس میں جج کی جانبداری کا سوال ہے یا اس کے غلطی کے اعتراف کا؟ جج اعتراف کر رہا ہے کہ انہیں معلوم تھا فیصلہ درست نہیں پھربھی دیا۔

عدالتی معاون مخدوم علی خان نےکہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج کی حد تک تو مولوی مشتاق کی جانبداری کا سوال تھا، سپریم کورٹ کے جج نے بعد میں کہا کہ ان پر دباؤ تھا۔

چیف جسٹس نےکہا کہ  اگر میں جانبدار ہوں تو  یہ میرے سوا کوئی نہ جان سکتا ہے نہ ثابت کرسکتا ہے، ممکن ہے بھٹوکیس میں جانبداری کے علاوہ کوئی نئی کیٹیگری نکالنی پڑے، اگر کل کو کوئی جج اٹھ کر کہے میں نے دباؤ میں فیصلہ کیا تو کیا ہوگا؟

جسٹس منصورعلی شاہ کے تین سوالات 

جسٹس منصورعلی شاہ نےکہا کہ  میں ابھی بھی آرٹیکل186 کا دروازہ کھلنے کے سوال پر ہوں، تین بنیادی سوالات کے جواب دیں۔

  1. ذوالفقاربھٹو کیس کے فیصلے میں کیا ناانصافی ہوئی؟
  2. ذوالفقار بھٹو کیس میں ناانصافی ہوئی تو اس کے ثبوت کیسے ملیں گے؟
  3. ذوالفقار  بھٹو فیصلے میں ناانصافی کے ثبوت مل جائیں تو کیا یہ عدالت آرٹیکل 186 کے تحت انکوائری کراسکتی ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس کے دائرہ اختیار میں انکوائری یا اس کیس کا دوبارہ  دروازہ کھول سکتی ہے؟ ذوالفقار بھٹو فیصلے میں ایک جج کے تناسب سے پھانسی دی گئی، اگر چار تین کی اکثریت کا فیصلہ نہ ہوتا توبعد میں ایک جج کا بیان اہمیت نہ رکھتا، کیا عدالت کمرے میں ہاتھی یعنی مارشل لاء کو نظر انداز کردے؟ کیا پراسیکیوشن کو  اس وقت ایک شخص کو مارشل لاء کے نفاذ کے لیے  سزا دینا مقصود نہیں تھا؟

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا  اُن  ججز  نے پی سی او حلف لے رکھا تھا؟ عدالتی معاون مخدوم علی خان نے بتایا کہ  پی سی او کا قانون 1981 میں آیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نےکہا کہ ہمیں یہ سوال کسی اپیل میں طے نہیں کرنا چاہیے؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آئینی پہلو  پر آپ کو  زیادہ سننا چاہتے ہیں۔

 اختلاف کرنے والےجسٹس صفدر شاہ کو ملک چھوڑنا پڑا:جسٹس منصور

جسٹس منصور نے کہا کہ  کیا اس کیس میں اختلاف کرنے والے ججز کو بعد میں ملک نہیں چھوڑنا پڑا؟ جسٹس صفدر شاہ کو ملک چھوڑنا پڑا، پھانسی کے فیصلے سے اختلاف کرنے  والے ججز کا کوئی انٹرویویا کتاب ہے؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ  جسٹس دراب پٹیل کا ایک انٹرویو  سرکاری وی کے پاس موجود ہے، دراب پٹیل کا انٹرویویوٹیوب پر نہیں ہے مگر سرکاری ٹی وی کے آرکائیو میں ہے، جسٹس نسیم حسن شاہ  نے انٹرویو میں کہا تھا کہ بھٹو کے  وکیل  نے سزا کم کرنے  پر دلائل نہیں دیے اور ججز کو ناراض کیا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا کوئی جج کرمنل کیس میں سزا کے خلاف اپیل پر  وکیل کی ملامت کرسکتا ہے؟ بھٹو کے وکیل سزا معطلی کے بجائے سزا میں کمی کی استدعا کیوں کرتے؟

جسٹس سردارطارق مسعود نے پوچھا کہ کیا اپیل میں سزا کم کرنےکی استدعا تھی؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اپیل میں سزا کم کرنےکی استدعا نہ بھی ہو تو جج کو انصاف کی فراہمی کو دیکھنا ہوتا ہے، کیا یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا کیس تھا جس میں ٹرائل ہائی کورٹ نےکیا اور ایک اپیل کا حق چھینا؟ کیا  سزائے موت چار تین کے تناسب سے دی جاسکتی ہے؟ مجھے لگتا ہےکہ ہمیں کیس کے حقائق کو دیکھنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سےکہا کہ  آپ مارشل لاء پر زیادہ بات نہیں کرتے، آپ عدالتی نظائر ہی بتادیں، کیا یہ واحد کیس ہے جس میں ڈائریکٹ ہائی کورٹ نے قتل کیس سنا؟

عدالتی معاون مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ  رپورٹ ہوئے مقدمات میں ایسا کوئی اور کیس نہیں، ویسے شاید ہو، دراب پٹیل نے انٹرویو میں کہا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دراب پٹیل مگر بدقسمتی سے نظرثانی متفقہ طور پر خارج کرنے والے بینچ کا حصہ تھے۔

کیا بلاول بھٹو اور ذوالفقاربھٹو جونیئر قصاص چاہتے ہیں؟ جسٹس مسرت

جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ  ذوالفقار بھٹو ریفرنس میں سپریم کورٹ کس قسم کاانصاف دے سکتی ہے؟ کیا بلاول بھٹو  زرداری اور  ذوالفقاربھٹو جونیئر  قصاص چاہتے ہیں؟ کیا ذوالفقار بھٹو قتل میں قصاص کا مطالبہ کیا جائےگا؟

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ  دنیا میں ہرکام کا بدلہ نہیں لیا جاتا،کچھ لوگ اپنی عزت نفس، بیگناہی اور تقدس کی بحالی کا بھی مطالبہ کرتے ہیں۔

کیس افواج  اور سپریم کورٹ کیلئے غلطی درست کرنےکاموقع نہیں؟چیف جسٹس

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا بھٹوکیس افواج پاکستان اور  سپریم کورٹ کے لیے اپنی غلطی درست کرنے اور  ساکھ بحالی کاموقع نہیں؟ کیایہ موقع نہیں کہ دونوں ادارے خود پر لگے الزامات سے دامن چھڑائیں، مارشل لاء فوج بطور  ادارہ  نہیں لگاتی بلکہ ایک شخص کا انفرادی فعل ہوتا ہے،کبھی نہ کبھی تو نئی شروعات ہونی ہے تو کیا یہ موقع نہیں؟ غلط کاموں کا مدعا انہی انفرادی شخصیات پر ڈال کر  اداروں کا ان سے لاتعلق ہونےکا موقع نہیں؟ کیا ایسا کرنا قوم کے زخم نہیں بھرےگا؟ ہم ماضی میں رہ  رہےہیں اور ہماری تاریخ بوسیدہ ہے، کیا بھٹوکیس کے فیصلے سے عدلیہ  اور  فوج کے لیے لکیر نہیں کِھنچ جائے گی؟

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ  ہم کیس کے میرٹ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا، بھٹو  کو  جس طرح  پھانسی کی سزا سنائی گئی اس طریقہ کار کو دیکھ سکتے ہیں، اگر یہ تعین کرنا ہےکہ  بھٹو کو سزا سناتے وقت  ججز دباؤ میں تھے تو اس کے ثبوت کیا ہوں گے؟ ججز کے دباؤ سے متعلق صرف انٹرویوز ہیں،کیا اس بنیاد  پر فیصلہ کردیں؟ کیا یہ سمجھا جائےکہ مارشل لاء کی وجہ سے جج دباؤ کا شکار تھے؟ کیا اس طرح مارشل لاء کے دوران سنائے گئے سارے فیصلے اٹھا کر باہرپھینک دیں؟

چیف جسٹس نےکہا کہ  بھٹوکیس مخصوص کیس تھا جس میں استغاثہ نے ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سزا سنائی، اگر یہ کیس خاص پیرائے میں دیکھیں تو مارشل لاء کے دوران باقی کیس دیکھنےکی ضرورت نہیں رہےگی،

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ  جنرل ضیا الحق کو مخصوص تاریخوں میں ذوالفقار بھٹو کی پھانسی درکار تھی۔

بینچ کےایک رکن کی ریٹائرمنٹ سے پہلےکیس کا فیصلہ کریں گے:چیف جسٹس

چیف جسٹس قاضی فائزعیٰسی کا کہنا تھا کہ کیس جلد سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، بینچ کے ایک رکن کی ریٹائرمنٹ سے پہلےکیس کا فیصلہ کریں گے۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ  سپریم کورٹ آرٹیکل187 کااختیاراستعمال کرکے بھٹو کیس کا فیصلہ کرسکتی ہے، بھٹو کیس میں ججز کی جانبداری ثابت کرنےکے لیے جسٹس نسیم حسن کا انٹرویو موجود ہے، ججزکی جانبداری ثابت کرنےکے لیے جسٹس دراب  پٹیل اور  جسٹس اسلم ریاض کے انٹریو  بھی ہیں، ججز کی جانبداری ثابت کرنےکے لیے اسلم بیگ  اور  جنرل فیض چشتی کی کتاب موجود ہے، اس وقت کے اٹارنی جنرل کا خط بھی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کیا جن صاحبان  پر جانبداری کا الزام لگ  رہا ہے ان کو سنا نہیں جانا چاہیے؟

آج کی سماعت کاحکم نامہ

چیف جسٹس قاضی فائزعیسٰی نےآج کی سماعت کاحکم نامہ لکھوادیا۔

حکم نامے میں کہا گیا ہےکہ مخدوم علی خان نے دلائل دیے اور تحریری بریف جمع کرانے کا بھی کہا، عدالتی معاون خالد  جاوید  خان تحریری جواب جمع کراچکے، خالد جاوید زبانی دلائل آئندہ  سماعت پر دے سکتے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کے لواحقین کو بھی سنا جائے گا، عدالتی معاونین کے بعد بلاول بھٹو کے وکیل فاروق نائیک، رضاربانی اور  زاہد ابراہیم کو سنیں گے، احمد رضا قصوری کو  بھی سنا جائےگا۔

مخدوم علی خان نےکہا کہ  حکم نامے میں اس تمام مسئلے کی جڑ  اٹارنی جنرل سے متعلق لکھنا بھول گئے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا، جی تو مسئلے کی جڑ، آپ دلائل میں کتنا وقت لیں گے؟

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کی میں آخر میں مختصر وقت لوں گا۔

بھٹوکیس میں بلی سے متعلق ایک جج نےکیا کہا تھا؟چیف جسٹس

چیف جسٹس نےکہا کہ بھٹوکیس میں بلی سے متعلق ایک جج نےکیا کہا تھا؟

اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ جسٹس قیصرخان نےکہا تھا کہ بھٹو کیس کے شواہد کی بنیاد پر تو ایک بلی کو بھی پھانسی نہیں ہوسکتی، جس انداز میں بھٹوکیس کا فیصلہ  دیا گیا ایسےکبھی کوئی کیس نہیں ہوا۔

ذوالفقارعلی بھٹو کیس سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت26 فروری تک ملتوی کردی گئی۔

یاد رہے کہ 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے ذریعے سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق ریفرنس دائر کیا تھا۔

اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپنی سربراہی میں 11 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا جس نے 3 جنوری 2012 سے 12 نومبر 2012 تک کیس کی 6 سماعتیں کیں لیکن کوئی فیصلہ نہ دیا۔

اب تقریباً 11 برس کے طویل عرصے بعد ریفرنس دوبارہ زیر سماعت ہے۔ 


مزید خبریں :