28 مارچ ، 2024
اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے لکھےگئے خط کے تناظر میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت ہونے والے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا جس میں کہا گیا کہ کسی بھی حالات میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، ایگزیکٹو کی جانب سے ججز کے عدالتی کاموں میں مداخلت برداشت نہیں کی جائےگی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے تناظر میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا۔
چیف جسٹس کی زیر صدارت ہونے والے فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز شریک ہوئے۔
فل کورٹ اجلاس کے اعلامیے کے مطابق 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کا خط ملا، معاملےکی سنگینی پر اسی دن چیف جسٹس نے اسلام آبادکے6 ججزکی میٹنگ بلائی، ہر جج کے تحفظات کو انفرادی طور پر سنا گیا۔
اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد فل کورٹ اجلاس دوبارہ بلایا گیا۔ اجلاس میں ججز کو وزیراعظم سے ملاقات پر بریف کیا گیا، فل کورٹ میٹنگ نے 6 ججز کے خط میں اٹھائے گئے ایشوز پر غور کیا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہےکہ وزیراعظم سے ملاقات میں واضح کیا گیا کہ کسی بھی حالات میں عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا، ایگزیکٹو کی جانب سے ججز کے عدالتی کاموں میں مداخلت برداشت نہیں کی جائےگی، ملاقات میں انکوائری کمیشن تشکیل دینےکی تجویز آئی، اچھی ساکھ والے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں انکوائری کمیشن کو معاملےکی چھان بین کرنی چاہیے، وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی کہ کمیشن کی تشکیل کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس بلایا جائےگا۔
اعلامیےکے مطابق چیف جسٹس اور ملاقات میں شامل سیینئر ترین جج کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی ستون ہے جو قانون کی حکمرانی برقرار رکھتا ہے۔ وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ وہ آزاد عدلیہ کو یقینی بنانے کے لیے مزید مناسب اقدامات کریں گے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے متعلقہ محکموں کو ہدایات جاری کرنےکی یقین دہانی بھی کرائی، وزیراعظم نے فیض آباد دھرناکیس کے پیرا گراف 53 سے متعلق قانون سازی شروع کرنےکی یقین دہانی بھی کرائی۔
خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر گزشتہ روز بھی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی زیر صدارت سپریم کورٹ کا فل کورٹ اجلاس ہوا تھا۔
اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر غور کیا گیا اور ججز کے خط کی آئینی و قانونی حیثیت کا جائزہ لیا گیا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈرمائن کرنے والے کون تھے؟ ان کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے، ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔