30 مارچ ، 2024
وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر انکوائری کمیشن تشکیل دے دیا اور ساتھ ہی انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز کی بھی منظوری دی۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس میں جس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا گیا۔
اعلامیے کے مطابق وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کی تشکیل کی منظوری دی اور سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی کو انکوائری کمیشن کا سربراہ نامزد کیا گیا ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز کی بھی منظوری دی جس کے تحت انکوائری کمیشن ججز کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ یہ الزامات درست ہیں یا نہیں؟
ٹی او آرز میں یہ بھی شامل ہے کہ انکوائری کمیشن تعین کرے گا کہ کیا کوئی اہلکار براہ راست مداخلت میں ملوث تھا؟ کمیشن کو انکوائری کے دوران کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرنے کا اختیار ہو گا۔
اعلامیے کے مطابق کمیشن تحقیق کرکے حقائق کی بنیاد پر کسی ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کابینہ نے 6 ججزکے خط میں ایگزیکٹو کی مداخلت کے الزام کی نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قراردیا اور کہا کہ دستور پاکستان میں طے کردہ تین ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول پرپختہ یقین رکھتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈرمائن کرنے والے کون تھے؟ ان کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے، ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان نے دو مرتبہ فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا، پہلے فل کورٹ اجلاس کے بعد وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات کے بعد ہونے والے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایگزیکٹو کی عدالتی کاموں میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔