30 مارچ ، 2024
اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن کی منظوری دے دی۔
ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس پاکستان تصدق حسین جیلانی انکوائری کمیشن کے سربراہ ہوں گے جس کی وفاقی کابینہ نے منظوری دے دی ہے۔
ذرائع کے مطابق جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی پر مشتمل ایک رکنی کمیشن اس معاملے کی تحقیقات کرے گا۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ انکوائری کمیشن اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے الزامات کی انکوائری کرے گا اور 60 روز میں اپنی رپورٹ جمع کروائے گا۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ آج کے کابینہ اجلاس میں اٹارنی جنرل کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا اور ان سے اس معاملے پر قانونی رائے لی گئی۔
ذرائع کے مطابق سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی سے بھی باضابطہ طورپر رابطہ کرلیا گیا ہے اور قانونی ٹیم کو بھی یہ بتادیا گیا ہےکہ کابینہ نے سابق چیف جسٹس کے نام پر اتفاق کیا ہے اور کابینہ نے انہیں مکمل مینڈیٹ دیا ہےکہ تحقیقات میں انہیں جس ادارے کی مدد درکار ہے وہ لے سکتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ حکومتی قانونی ٹیم کو ہدایت کی گئی ہےکہ چیف جسٹس پاکستان کو بھی اس فیصلے سے آگاہ کیا جائے کہ ان سے اس حوالے سے جو طے پایا تھا کابینہ نے اس پر عملدرآمد کردیا ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ یہ معاملہ جب کابینہ اجلاس میں زیرغور آیا تو بیوروکریسی اور غیر متعلقہ افراد کو باہر نکال دیا گیا جب کہ کابینہ ارکان نے کمیشن کے سربراہ کے تقرر کا اختیار وزیراعظم کو دیتے ہوئے کہاکہ آپ جس کو بھی کمیشن کا سربراہ بنائیں گے ہم آپ کی حمایت کریں گے۔
ذرائع کے مطابق کابینہ نے انکوائری کمیشن کے ٹی او آرز بھی طے کردیے ہیں جن کا باضابطہ اعلان پریس ریلیز میں کیا جائے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا خط
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھ کر مطالبہ کیا کہ ہم جسٹس ریٹائرڈ شوکت عزیز صدیقی کے تحقیقات کرانے کے مؤقف کی مکمل حمایت کرتے ہیں، اگر عدلیہ کی آزادی میں مداخلت ہو رہی تھی تو عدلیہ کی آزادی کو انڈرمائن کرنے والے کون تھے؟ ان کی معاونت کس نے کی؟ سب کو جوابدہ کیا جائے تاکہ یہ عمل دہرایا نہ جا سکے، ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ میں کوئی رہنمائی نہیں کہ ایسی صورتحال کو کیسے رپورٹ کریں۔
فل کورٹ اجلاس/ وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر چیف جسٹس پاکستان نے دو مرتبہ فل کورٹ اجلاس طلب کیا تھا، پہلے فل کورٹ اجلاس کے بعد وزیراعظم اور چیف جسٹس کی ملاقات ہوئی تھی، اس ملاقات کے بعد ہونے والے فل کورٹ اجلاس کا اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایگزیکٹو کی عدالتی کاموں میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی۔