06 مئی ، 2024
ہم راستے ڈھونڈنے میں بہت زیادہ اچھے ہوتے ہیں، یعنی اپنے گھر کا راستہ تلاش کر لیتے ہیں، اپنے پسندیدہ مقامات کو یاد رکھتے ہیں یا بھول بھلیوں جیسی جگہوں پر بھی مشکل پیش نہیں آتی۔
یعنی اسمارٹ فون کے بغیر بھی ہم نیوی گیشن کے مشکل ترین کام آسانی سے کر لیتے ہیں۔
مگر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا راز سائنسدانوں نے جان لیا ہے۔
درحقیقت ہمارے دماغ کے اندر ایک قدرتی کمپاس موجود ہوتا ہے جو جی پی ایس کی طرح کام کرتا ہے۔
سائنسدانوں نے دماغ کے ایسے حصے کو دریافت کیا ہے جو کسی کمپاس کی طرح کام کرتے ہوئے اردگرد کے ماحول میں راستے تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
یہ دماغی حصہ اعصابی خلیات کو برقی سگنل بھیج کر آگاہ کرتا ہے کہ کسی نئے راستے پر کس جانب جانا ہے۔
برطانہ کی برمنگھم یونیورسٹی اور جرمنی کی Ludwig Maximilian یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں یہ دریافت کی گئی۔
محققین نے بتایا کہ راستوں کو شناخت کرنا ہمارے لیے بہت اہم ہوتا ہے اور اندازے کی معمولی غلطی بھی تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ پرندوں، چوہوں اور چمگادڑوں میں اس طرح کا قدرتی نظام راستوں کو تلاش کرنے میں مددفراہم کرتا ہے، مگر حیران کن طور پر ہم انسانی دماغ کی اس صلاحیت کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔
اس تحقیق میں 52 صحت مند افراد کو شامل کیا گیا تھا اور ان کے سروں پر ای ای جی مانیٹر لگائے گئے تاکہ راستے پر چلتے ہوئے دماغی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔
اس سے ہٹ کر مختلف دماغی امراض کے شکار 10 افراد کی بھی دماغی مانیٹرنگ کی گئی اور انہیں مختلف راستوں پر چلنے کی ہدایت کی گئی۔
دونوں تجربات کی مدد سے سائنسدان سمت کا تعین کرنے والے دماغی سگنل کو شناخت کرنے کے قابل ہوگئے۔
محققین کا ماننا ہے کہ یہ سگنلز ایک اندرونی دماغی کمپاس کی طرح کام کرکے ہمیں راستے تلاش کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان سگنلز کے ذریعے ہمیں دماغی نیوی گیشن کے عمل پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملی اور دریافت ہوا کہ کس طرح یہ سگنلز بینائی کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیق سے مستقبل میں دماغی تنزلی کا باعث بننے والے امراض کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی جبکہ روبوٹس یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کی نیوی گیشن ٹیکنالوجیز کو بہتر بنانا بھی ممکن ہوگا۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر ہیومین بی ہیوئیر میں شائع ہوئے۔