19 مئی ، 2024
سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے ایک بار پھر عملی سیاست میں آنے کا عندیہ دے دیا ہے۔
سیاسی معاملات پر طویل خاموشی توڑتے ہوئے ڈاکٹرعشرت العباد نے اس نمائندے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے موجودہ سیاسی صورتحال پر بات کی اور حالیہ ملاقاتوں کے حوالے سے کئی اہم سوالات کے جواب دیے۔
ڈاکٹرعشرت العباد نے سیاست میں واپسی کا ارادہ ایسے وقت ظاہر کیا ہے جب ایم کیو ایم کے تین دھڑے یعنی خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار اور مصطفٰی کمال ایم کیو ایم پاکستان کے بینر تلے اکھٹے ہیں اور نئے سیٹ اپ میں خالد مقبول صدیقی کو چئیرمین بنالیا گیا ہے۔ یہ وہ وقت بھی ہے کہ جب ایم کیوایم تنظیم نو کے عمل سے گزر رہی ہے۔
تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سب کے باوجود عوامی سطح پر ایم کیوایم ماضی کی طرح تاحال متحرک نہیں، ساتھ ہی ایم کیو ایم کے تنظیمی ڈھانچے کی قانونی اور آئینی حیثیت پرکئی فعال، کم فعال اور غیر فعال رہنماوں کی جانب سے چھبتے ہوئے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
نکتہ چینی کرنے والے یہ رہنما اس وقت پاکستان میں بھی ہیں جبکہ کئی متحدہ عرب امارات سمیت خلیجی ممالک، امریکا اورکینیڈا سمیت کئی دیگر جگہوں پر بھی مقیم ہیں۔ تاہم ماضی میں اہم عہدوں پرفائز رہنے والے ان رہنماؤں میں سے شاید ہی کوئی ہو جس نے برطانیہ کو اپنا مسکن بنایا ہو کیونکہ وہاں رہنے سے ان پر ایم کیو ایم لندن کا حصہ ہونے کی بلاجواز چھاپ لگنے کا اندیشہ ہے۔
ڈاکٹرعشرت العباد کی جانب سے سیاست میں واپسی کا عندیہ ایسے وقت بھی دیا گیا ہے جب سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کی جانب سے نئی سیاسی جماعت لانچ کی جارہی ہے، نئی جماعت کی انیس تاریخ کو کراچی میں میٹنگ ہونی ہے جس میں بعض مقامی سیاسی شخصیات کی جانب سے اس نئی پارٹی میں شمولیت کا امکان ہے۔
نئی سیاسی جماعت میں کیا ایم کیو ایم کی موجودہ قیادت سے ناراض بعض افراد بھی شامل ہوں گے یا نہیں، یہ کہنا قبل ازوقت ہے تاہم کئی وجوہات کی بنا پر اسے خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اسی نمائندے نے چند روز پہلے یہ ایکسکلوسیو خبر دی تھی کہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل نے سابق گورنرسندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے دبئی میں علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں جس میں سیاسی صورتحال پربات کی گئی تاہم دونوں جانب سے اس معاملے پر لب کشائی سے گریز کیا گیا تھا۔
اب اس نمائندے سے ٹیلی فون پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے اس ملاقات کے حوالے سے بھی بات کی۔ جس انداز سے گفتگو کی گئی، قارئین کی سہولت کیلیے بات چیت کا متن اسی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔
پہلا سوال میں نے ملکی تازہ ترین صورتحال پر پوچھا کہ آج ملک کے اہم ستونوں کے درمیان تناؤ کی سی صورتحال ہے، اس کا حل کیا ہے۔
سابق گورنر سندھ نے کہا کہ آج منظرنامے میں عدلیہ، اسٹیلبشمنٹ اور پارلیمنٹ میں کھینچا تانی ہے، ہماری عدلیہ، پارلیمنٹ اور افواج ملک کے ستون ہیں، یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ملک کے ستنوں کے درمیان کوئی تناؤ ہے، ایسے حالات میں ایوان صدر کا کردار انتہائی اہم ہو جاتا ہے، صدرپاکستان ریاست کے آئینی سربراہ، ریاست کے اتحاد کی علامت ہیں، اس وقت ایوان صدر اثر و رسوخ استعمال کرے، غلط فہمیاں دورکی جائیں۔
اس نمائندے نے سوال پوچھا کہ شاہد خاقان عباسی اپنی سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کرارہے ہیں اور اس سے پہلے انہوں نے آپ سے دبئی میں دو ملاقاتیں کی ہیں تو یہ بتائیے کہ ایم کیوایم کے غیر فعال رہنماؤں میں سے آپ ہی سے انہوں نے کیوں ملاقاتیں کیں اور بات چیت کیاہوئی؟
ڈاکٹرعشرت العباد نے کہا کہ شاہد خان عباسی اور مفتاح اسماعیل کے ساتھ علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں ہوئیں جن میں اس بات پرتبادلہ خیال کیا گیا کہ ملک کو درپیش سخت چیلنجزسے نمٹنے کے لیے کیا کاوشیں عمل میں لائی جاسکتی ہیں۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ تجربہ کار لوگوں کو اور خصوصاً وہ لوگ جو ملک میں انتظامی اور سیاسی معاملات پر اپنا موثر کردار ادا کرچکے ہیں اور انتقامی سیاست سے گریز کرتے ہیں، انہیں پھر سے آگے بڑھنا چاہیے اور اپنی صلاحیتوں اور استطاعت کے مطابق کردار نبھانا چاہیے تاکہ معاشی بحران ختم ہو اور سیاسی بے یقینی کی فضا استحکام میں تبدیل کی جاسکے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انہوں نے مجھ سے رابطہ کیوں کیا، اسکا بہتر جواب وہی دے سکتے ہیں۔
اس سوال پر کہ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ شاہد خاقان عباسی کی نئی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیارکرکے سندھ کے شہری علاقوں میں اسکی قیادت سنبھالیں گے اور ایم کیوایم کے کم فعال اور غیرفعال رہنما بھی آپ کے ساتھ ہوں گے؟
ڈاکٹرعشرت العباد نے کہا کہ ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا ہےکہ ملک کی موجودہ صورتحال میں ایک ایسے پلیٹ فارم کی اشد ضرورت ہے جس میں مُخلص اور باصلاحیت قیادت مل کر مسائل کا حل تلاش کرے۔ آپس میں تعاون کی مکمل یقینی دہانی بھی کرائی گئی ہے تاہم باقاعدہ کسی سیاسی جماعت کے قیام کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں کی گئی۔ جہاں تک ایم کیوایم کے غیرفعال رہنماوں کی شمولیت کا تعلق ہے تو اس بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔
اس سوال پر کہ نئی سیاسی جماعت کا آپ کے نزدیک مستقبل کیا ہے کیونکہ اگرحالیہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو ایم کیو ایم کے مختلف دھڑوں یعنی پاک سرزمین پارٹی اورفاروق ستارگروپ کو اپنی شناخت ختم کرکے ایم کیوایم پاکستان میں ضم ہونا پڑا، اسی طرح پی ٹی آئی سے علیحدہ ہوکر پی ٹی آئی پارلیمینٹیرینز بنانے والے پرویزخٹک ہوں یا استحکام پاکستان پارٹی، یہ الیکشن میں اچھا پرفارم نہیں کرسکیں تو کیا شاہد خاقان عباسی کی پارٹی سے متعلق آپ کو خدشات ہیں؟
ڈاکٹر عشرت العباد نے جواب دیا کہ جن پارٹیوں کا آپ نے حوالہ دیا ہے ان کے حالات اور قیام کی وجوہات مختلف تھی اور ان کا انجام قطعی فطری تھا۔ جہاں تک شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل صاحب کی بات ہے تو ان کی پارٹی کا تصور بنیادی طورپر مختلف ہے۔ میری نظر میں اگر یہ پارٹی گُڈ گورننس اور عوامی خدمات کی سوچ پر گامزن رہی، مخالفت برائے مخالفت کی سیاست سے دور رہی اور تجربہ کار کے ساتھ ساتھ نئے پُرخلوص لوگ شامل کیے تو ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں یہ اچھی گنجائش پیدا کرسکتی ہے۔
اس سوال پر کہ آپ نے اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں کیا سوچا ہے کیونکہ آپ نے اسٹوڈنٹ پالیٹکس سے سیاست کا آغاز کیا، ملکی سطح پر کم وبیش چالیس سال عملی سیاست کا اہم حصہ رہے اور اس دوران ملک کی تاریخ کے طویل ترین گورنر ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل رہا تو کیا آپ وطن آکر پھر سے عملی سیاست میں واپسی کا ارادہ رکھتے ہیں؟
ڈاکٹرعشرت العباد نے جواب دیا کہ حالیہ کچھ عرصے سے ہی میں نے اس بارے میں سوچنا شروع کیا ہے کہ مجھے ملک کے لیے عملی طورپر اپنا کردار پھر سے ادا کرنا چاہیے۔ مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بات چیت اور ملاقاتوں نے میری اس سوچ کو تقویت دی ہے کہ ملک کو گرداب سے نکالنے کے لیے ہرمخلص شخص کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ اس وقت ملک کو شدت سے بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں کچھ کوششیں میں نے کی ہیں جن کے مثبت نتائج بھی آرہےہیں۔ جہاں تک سیاسی کردار کا تعلق ہے، یہ کیسے اور کس پلیٹ فارم سے ادا کرنا ہے تو اس کا فیصلہ ابھی نہیں کیا۔
اس سوال پر کہ ایم کیو ایم پاکستان اور خاص طور پر پی ایس پی سے آئے چند رہنما یہ تاثر دیتے ہیں کہ آپ ایم کیو ایم لندن کی طرف مائل ہیں، اس میں کتنی صداقت ہے؟
ڈاکٹرعشرت العباد نے بلاتامل اور دوٹوک انداز سے جواب دیا کہ ایم کیو ایم لندن کی طرف مائل ہونے کا تاثر بالکل غلط ہے اور مضحکہ خیز بھی۔ 2015 میں بانی ایم کیوایم بشمول میری جماعت نے مجھ سے لاتعلقی کرلی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب ایم کیو ایم ایک تھی اور اپنے پورے عروج پرتھی۔ اس وقت بانی ایم کیوایم اورپارٹی مجھ سے لاتعلق ہوئی تو میں بھی ان سے لاتعلق ہوگیا۔ میرے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والے وہ چند لوگ کون ہیں اور وہ ایسا کیوں اور کہاں کرتے ہیں میں اس سے اچھی طرح واقف ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو بھی پتا ہے کہ یہ بات قطعی درست نہیں۔ اس قسم کی غلط فہمیاں اور تصورات پھیلانے میں احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ اگر کچھ حقائق سامنے آئے تو ان کے لیے شرمندگی کا باعث ہوگا۔
چند لفظوں میں ساری بات کہنے والے ڈاکٹرعشرت العباد سندھ کے 14 برس تک گورنر رہے ہیں۔ سابق صدر جنرل پرویزمشرف ہوں یا آصف علی زرداری اور سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف اور عمران خان، سب ہی سابق گورنر ڈاکٹرعشرت العباد کی سیاسی بصیرت کے قائل رہے ہیں۔کراچی سمیت صوبے میں دہشتگردی سے نمٹنے اور امن وامان کے قیام سے متعلق اپنے دور میں ان کی حکمت عملی کو مقتدر حلقوں کی جانب سے بھی سراہا جاتا رہا ہے۔
ان کے دورمیں ٹارگٹ کلنگ، سیاسی تشدد، گینگ وار، بھتہ خوری اور چائنا کٹنگ کے خلاف آپریشن میں ایم کیوایم کے بعض افراد کے پکڑے جانے پر بانی ایم کیوایم الطاف حسین نے انہیں کئی بار گورنر شپ سے استعفے پر مجبور کیا اور اپنے خطابات میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ یہ ہمارے گورنرنہیں۔ تاہم آرٹ آف سروائیول کے ماہر ڈاکٹرعشرت العباد 11 نومبر 2016 تک عہدے پر برقرار رہے جس کے بعد وہ متحدہ عرب امارات منتقل ہوگئے تھے اور اب تک وہیں مقیم ہیں۔
ڈاکٹرعشرت العباد کے سیاست میں دوبارہ کردار ادا کرنے کا ارادہ ظاہر کیے جانے کے بعد سوال پیدا ہوا ہے کہ آیا وہ موجودہ ایم کیوایم کا حصہ ہوں گے، شاہد خاقان عباسی کی پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گے یا ن لیگ، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں گے۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہوں تاہم یہ سب پتے ڈاکٹرعشرت العباد نے ابھی سینے سے لگا کررکھے ہیں۔